وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا
اور (مسلمانو) جب کبھی تمہیں دعا دے کر سلام کیا جائے تو چاہیے کہ جو کچھ سلام و دعا میں کہا گیا ہے اس سے زیادہ اچھی بات جواب میں کہو یا (کم از کم) جو کچھ کہا گیا ہے اسی کو لوٹا دو بلاشبہ اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے (تمہاری کوئی چھوٹی سے چھوتی بات بھی اس کے محاسبہ سے چھوٹ نہیں سکتی)
جب کوئی شخص دوسرے کو سلام کہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کے حق میں سلامتی کی دعا کرتا ہے۔ زیادہ اچھا جواب دینے کے لیے حدیث میں اس طرح آیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا ’’ السلام علیکم‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دس نیکیاں ہیں پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا ’’ السلام و علیکم ورحمة اللّٰہ‘‘ تو آپ نے فرمایا ’’اس کے لیے بیس نیکیاں ہیں‘‘ پھر ایک اور آدمی آیا اُس نے کہا ’’ السلام و علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ‘‘ آپ نے فرمایا اس کے لیے تیس نیکیاں ہیں۔ (ترمذی: ۲۶۸۹، ابو داؤد: ۵۱۹۵) لیکن اگر کوئی ’’ السلام و علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ‘‘ کہے تو اضافے کے بغیر انہی الفاظ میں جواب دیا جائے۔ یاد رہے یہ حکم صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ یعنی ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کہے۔ رہا یہود و نصاریٰ کو سلام کرنا تو ایک تو ان کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے، دوسرے اضافہ نہ کیا جائے، بلکہ وعلیکم کے ساتھ انھیں جواب دیا جائے ۔ (بخاری: ۲۱۶۷)