أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا
پھر کیا یہ لوگ قرآن (کے مطالب) میں غور و فکر نہیں کرتے؟ (اور خدا کی دی ہوئی سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے) اگر یہ کسی دوسرے کی طرف سے ہوتا، اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو ضوری تھا کہ یہ اس کی بہت سی باتوں میں اختلاف پاتے (حالانکہ وہ اپنی ساری باتوں میں اول سے لے کر آخر تک، کامل طور پر ہم آہنگ اور یکساں ہے)
منافقوں کو جن باتوں پر تنبیہ کی گئی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نہ تو وہ سچے دل سے رسول اللہ کے قائل تھے اور نہ کتاب اللہ پر یقین ہی کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اگرانھوں نے قرآن پر غوروفکر کیا ہوتا تو ان پر عیاں ہوجاتا کہ یہ کسی انسان کا نہیں، اللہ رب العزت کا کلام ہے۔ اس طرح وہ اس شک اور تذبذب سے نجات حاصل کرلیتے۔ یہ کتاب جو تئیس سال کے عرصہ میں نازل ہوئی اس میں تضاد اور اختلاف نہیں، ایک انسان اس پر قادر نہیں کہ سال ہا سال وہ مختلف حالات مختلف مواقع مختلف مضامین پر تقاریر کرتا رہے، اور تمام تقاریر ایک رنگ کی ہموار اور متناسب مجموعہ بن جائیں، جس کا کوئی جزو دوسرے جزو سے متصادم نہ ہو۔ علامہ بیضاویؒ نے ایک جملہ میں سب کچھ بیان کرکے رکھ دیا ہے۔ کہ قرآن کی کوئی آیت نہ مضمون کے لحاظ سے دوسری آیت کے خلاف ہے، نہ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے کوئی حصہ دوسرے سے فروتر ہے۔ معنی اور حقائق کا سمندر ہے۔ جس کی لہروں میں آویزش ہے۔ جس کی ہر موج اور ہر قطرہ کُل کا رنگ و بُو لیے ہوئے ہے۔ اس سے بڑھ کر قرآنِ کریم کے کلام الٰہی ہونے کی کیا دلیل ہوسکتی ہے۔ اور اس کلام کو اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے۔