وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا
اور اگر ہم ان کے لیے یہ فرض قرار دے دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا کوئی اس پر عمل نہ کرتا۔ اور جس بات کی انہیں نصیھت کی جارہی ہے اگر یہ لوگ اس پر عمل کرلیتے تو ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، اور ان میں خوب ثابت قدمی پیدا کردیتا۔ (٤٤)
اس آیت میں انہی نافرمانوں کے رویے کی طرف اشارہ کرکے کہا جارہا ہے جو رسول اللہ کا فیصلہ قبول کرنے پر آمادہ نہیں کہ اگر ہم کسی بنا پر ان پر قتل واجب کردیتے جیسا کہ بچھڑا پوجنے والوں پر واجب کیا تھا، یا اپنے گھروں سے نکل جانے یا ہجرت کرنے کو کہتے تو اس قسم کی قربانیوں پر یہ کیسے عمل کرسکتے تھے۔ اگر یہ اللہ اور رسول اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے، تو اللہ تعالیٰ تو بہت شفیق اور مہربان ہے۔ اس کے احکامات بھی آسان ہیں۔ اس لیے اگر وہ ان حکموں پر چلیں جس کی انھیں نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لیے بہتر اور ثابت قدمی کا باعث ہوتا کیونکہ اطاعت سے ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ اور نافرمانی سے کم۔ نیکی سے نیکی کا راستہ کھلتا ہے، اور بدی سے بدی پیدا ہوتی ہے۔ غرض ایمان اور عمل صالح سے راستہ کشادہ اور آسان ہوتا ہے۔ اسلام انسان سے یہی چاہتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت میں اپنے آپ کو مٹا دے، اور انسان اپنے نفس کے پیچھے لگ کر صراط مستقیم گم کردیتا ہے، اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔