وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ
اس دن کی پکڑ سے ڈرو جبکہ (انسان کی کوئی کوشش بھی اسے برے کاموں کے نتیجوں سے نہیں بچاسکے گی اس دن) نہ تو کوئی انسان دوسرے انسان کے کے کام آئے گا، نہ کسی کی سفارش سنی جائے گی، نہ کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا، اور نہ کہیں سے کسی طرح کی مدد ملے گی
بنی اسرائیل کے گزشتہ مذكورہ غلط عقیدے کے ردّ میں اس آیت میں ارشاد ہوا کہ اس دن سے ڈرو۔ روزِ قیامت كی تیاری كی طرف متوجہ كرنے والی چار باتیں: (۱) اس دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔(۲)کسی کی سفارش کام نہیں آئے گی۔ (۳) نہ فدیہ قبول کیا جائے گا۔ (۴) اللہ کے سوا کوئی حامی و مددگار نہیں ہوگا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۔وَ اَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى﴾ (النجم: ۳۸ تا ۴۰) ’’کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان ) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔اور یہ کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی۔اور یہ کہ یقینا ًاس کی کوشش جلد ہی اسے دکھائی جائے گی۔‘‘ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد ہے: اے قریش اپنی اپنی جانوں کو نیک اعمال كے ذریعے بچالو۔ میں تمہارے کسی کام نہیں آسکتا تمام قبیلوں سے یہی الفاظ کہے اور اپنی پھوپھی اور اپنی بیٹی سے بھی یہی بات فرمائی کہ اللہ کی قسم! قیامت کے دن میں تمہارے کسی کام نہیں آسکتا (۲) جن کا عمل اسے پیچھے کردے اس کا نسب اُسے آگے نہیں کرسکتا۔‘‘ (مسلم: ۲۰۴) اس سے شفاعت کی بابت غلط عقیدے کی بھی تردید یعنی نفی ہوگئی۔