سورة النسآء - آیت 60

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لے آئے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا، (لیکن) ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنا مقصد فیصلے کے لیے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں؟ (٤٢) حالانکہ ان کو حکم یہ گیا تھا کہ وہ اس کا کھل کر انکار کریں۔ اور شیطان طاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا کردے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

منافق اور طاغوت: منافق وہ ہے جو ظاہر میں اسلام کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ دل سے اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ طاغوت، ہر وہ فرد، عدالت، ادارہ یا نظام ہے جو اللہ کے حکم کے مقابلہ میں اپنا حکم لوگوں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ منافقوں کا طریقہ یہ تھا کہ جس مقدمہ میں انھیں توقع ہوتی کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا وہ مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاتے، اور جس مقدمہ میں خطرہ ہوتا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہوگا اس مقدمہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لانے میں پس و پیش کرتے یہاں تک کے انکار بھی کردیتے، آج بھی نام نہاد مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ اگر شریعت کا فیصلہ ان کے حق میں ہو تو سر آنکھوں پر، ورنہ وہ ہر اس قانون، ہراس رسم و رواج اور ہر اس عدالت کے دامن میں پناہ لیں گے جہاں سے انھیں اپنی منشا کے مطابق فیصلہ ہونے کی توقع ہو۔ اصل ارادہ شیطان کا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان دور کی گمراہی میں چلا جائے یعنی مسلمان ایمان کی حدود سے نکل جائے۔اللہ نے چھپی ہوئی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ ایک یہودی اور ایک منافق میں کسی بات پر جھگڑا ہوگیا۔ یہودی مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جانا چاہتا تھا اور منافق کہنے لگا کہ اسے تمہارے سردار کعب بن اشرف کے پاس لے چلتے ہیں۔ منافق کو توقع تھی کہ وہ مکر و فریب اور رشوت سے فیصلہ اپنے حق میں کروالے گا۔ مگر یہودی نہ مانا، چنانچہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا آپ نے فریقین کی بات سن کر فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا۔ اب یہودی کہنے لگا کہ چلو اب حضرت عمر بن خطاب سے بھی فیصلہ لے لیتے ہیں۔ منافق کا خیال تھا کہ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں اسلامی حمیت بہت ہے لہٰذا وہ مجھے مسلمان سمجھتے ہوئے فیصلہ میرے حق میں کردیں گے۔ چنانچہ دونوں نے حضرت عمر کے سامنے اپنے اپنے بیان دیے۔ یہودی نے بیان دینے کے بعد یہ بھی کہہ دیا کہ ہم یہ مقدمہ تمہارے نبی کے پاس لیکر گئے تھے اور انھوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اندر گئے تلوار نکال لائے اور آتے ہی منافق کا سر قلم کردیا۔ اور فرمایا جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تسلیم نہ کرے اس کے لیے میرے پاس یہی فیصلہ ہے۔ (بخاری: ۲۶۶۱)