يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں ان کی بھی۔ (٤١) پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اگر واقعی تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور رسول کے حوالے کردو۔ یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں واضح کیا ہے کہ اہل ایمان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے اور اوالامر کی اطاعت اس لیے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ ذمہ دار ہوتا ہے۔ اور اگر پھر بھی کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو معاملہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دیں۔ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ﴾ (الاعراف: ۵۴) ’’خبردار مخلوق بھی اُسی کی ہے اور حکم بھی اُسی کا ہے۔‘‘ حکم صرف اللہ کا ہے لیکن چونکہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم خالص منشائے الٰہی کا مظہر ہیں اور اللہ کی مرضی کا نمائندہ ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قراردیا اور فرمایا ’’رسول اللہ کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ﴾ (النساء: ۸۰) ’’جس نے رسول کی اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی ۔‘‘ اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حدیث بھی دین کا ماخذ ہے جس طرح قرآن کریم ہے اولوالامر کی اطاعت بھی ضروری ہے لیکن وہ مشروط ہے اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ اسی لیے اطیعواللہ کے بعد اطیعواُلرسول تو کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں اور اطیعوالامر نہیں کہا کیونکہ یہ اطاعت مستقل نہیں ہے۔ ارشادِ نبوی ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں، معروف کام میں اطاعت ہے۔ (بخاری: ۷۲۵۷) یہی حال علماء فقہاء کا بھی ہے ان کی اطاعت اس لیے کرنی ہوگی کہ وہ اللہ اور رسول کے احکام و فرمودات بیان کرتے اور دین کی طرف ہدایت اور راہنمائی کا کام کرتے ہیں۔ لیکن ان کی اطاعت صرف اس وقت ہوگی جب وہ عوام کواللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتلائیں گے۔ لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو ان کی اطاعت ضروری نہیں بلکہ یہ جانتے بوجھتے ہوئے ان کی اطاعت کرنا سخت گناہ کا کام ہے۔ جماعتی زندگی ضروری ہے: جو فرد جس کام پر مقرر کیا گیا ہے اگر تین افراد ہیں تو ایک ان کا امیر ہوگا اور دو ماتحت ہونگے، چھوٹی بڑی اجتماعیت میں جو بھی سربراہ ہوگا اس کی اطاعت ضروری ہے۔ انسان کو اختیار کے ساتھ فطری نظام قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جبکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کے بندھے ہوئے نظام میں رہ کر اطاعت کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ انسان بھی معاہدے اور مرکز کے ساتھ جڑ کر اپنی زندگی گزارے۔ رسول اللہ نے فرمایا ’’سنو اور اطاعت کرو۔ اگرچہ تم پر کسی حبشی غلام کو بھی امیر بنایا جائے چاہے اس کا سر منقی کی طرح چھوٹا ہو۔‘‘ (ابو داؤد: ۴۶۰۹، ابن ماجہ: ۴۲) اللہ اور رسول کی طرف لوٹانے سے مراد: اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد قرآن کریم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد اب حدیث رسول ہے تنازعات کو دور کرنے کے لیے یہ بہترین اصول بتادیا گیا ہے اس اصول سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کسی تیسری شخصیت کی اطاعت واجب نہیں۔ جو لوگ تقلید شخصی یا تقلید معین کے قائل ہیں اور جو قرآن کی اس آیت کی صریح مخالفت ہے، مسلمانوں کو امت متحدہ کی بجائے منتشر اُمت بنا رکھا ہے۔ اور ان کے اتحاد کو تقریباً نا ممکن بنا دیا ہے۔ مثلاً فرقہ واریت ہے۔