إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا
(مسلمانو) یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ یقین جانو اللہ تم کو جس بات کی نصیحت کرتا ہے وہ بہت اچھی ہوتی ہے۔ بیشک اللہ ہر بات کو سنتا اور ہر چیز کو دیکھتا ہے۔
شان نزول: فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف وغیرہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوچکے تھے طلب فرمایا اور نہیں خانہ کعبہ کی چابیاں دے کر فرمایا ’’یہ تمہاری چابیاں ہیں آج کا دن نیکی اور وفا کا دن ہے۔‘‘ (ابن کثیر: ۱/ ۷۰۲) آیت کا نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہیں۔ دونوں کو تاکید کی ہے کہ امانتیں انھیں پہنچاؤ جو ان امانتوں کے اہل ہیں۔ ایک تو وہ امانتیں جو کسی نے آپ کے پاس رکھوائی ہوں ان میں خیانت نہ کی جائے اور مانگنے پر بحفاظت امانت والے کو لوٹا دی جائیں۔ دوسرے عہدے اور مناصب اہل لوگوں کو دیے جائیں، محض سیاسی، نسلی، وطنی یا قرابت و خاندان کی بنیاد پر یا کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر عمدہ مناصب دینا اس آیت کے خلاف ہے۔ اس میں بطور خاص حکام کو عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنا، اور عدل و انصاف مہیا کرنا۔ ایک روایت میں ہے کہ حاکم جب تک ظلم نہ کرئے، اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کردیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ (ابن ماجہ: ۲۳۱۲) اور ایک روایت میں ہے کہ انصاف کرنے والے اللہ کے عرش کے دائیں جانب نور کے ممبروں کے سائے میں ہوں گے۔(مسلم: ۱۸۲۸)