أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا
جن لوگوں کو کتاب (یعنی تورات کے علم) میں سے ایک حصہ دیا گیا تھا، کیا تم نے انکو نہیں دیکھا کہ وہ (کس طرح) بتوں اور شیطان کی تصدیق کر رہے ہیں اور کافروں (یعنی بت پرستوں) کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مومنوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔ (٣٧)
جبت کیا ہے؟ جبت سے مراد بے فائدہ بے حقیقت کام مثلاً رمل، فال، نجوم، شگون، جادو، ٹونے ٹوٹکے، جنتر منتر، سیاروں اور پتھروں وغیرہ کے انسانی زندگی پر اثرات، نقش اور تعویذ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ طاغوت کیا ہے؟ ہر وہ باطل قوت اور نظام ہے جس کی اطاعت کرنے پر لوگ مجبور ہوں اور اللہ کی اطاعت کے مقابلہ میں انھیں اس فرد، ادارہ، یا حکومت کی اطاعت کرنے پر مجبور بنادیا جائے اور لوگ انھیں احکام الٰہیہ کے مقابلہ میں تسلیم کرلیں، یہ گاؤں کے چوہدری، پیرومشائخ بھی ہوسکتے ہیں۔ سوشلزم یا جمہوریت کی طرز کے باطل نظام بھی ہو سکتے ہیں اور فرعون اور نمرود کی طرح سرکش بادشاہ بھی ہو سکتے ہیں۔ طاغوت نفس بھی ہوسکتا ہے جیسے حضرت ابراہیم کے والد نے طاغوتی کردار میں کہا ’’تجھے میں آگ میں ڈلوادوں گا تو مجھے میرے آباؤ اجداد کے طریقوں سے روکتا ہے۔‘‘ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اللہ کی مرضی پر نہیں چلی اپنی مرضی سے زندگی گزاری۔ فرعون طاغوتی کردار تھا جبکہ اس کی بیوی اللہ کی غلام تھی اللہ کی بندگی کے علاوہ جو بھی راستہ ہے وہ جبت اور طاغوت کا راستہ ہے۔ ایک طاغوت شیطان ہے جو انسان کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدابہار سبز باغ پیش کرتا ہے۔ یہ سب طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں جو انسان سے اپنی اغراض کی بندگی کرواتے ہیں اور بے شمار آقاؤں کا یہ غلام ساری عمر اسی جگہ میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرئے اور کس کی ناراضگی سے بچے۔ یہود کا غلط قول کہ کافر ایمان والوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں: یہودی علماء اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہاں تک پہنچ گئے کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان کو وہ مشرکین عرب سے زیادہ گمراہ قراردیتے تھے۔ یاد رہے کہ مشرکین مکہ نے جب بھی مدینہ پر چڑھائی کی تو یہود نے ہمیشہ مشرکین کا ساتھ دیا۔ ایسے ہی کسی موقع پر مشرکوں نے یہودیوں سے پوچھا کہ ہم بہتر ہیں یا مسلمان، اور یہ انھیں خوش کرنے کے لیے ایسا جواب دے دیتے حالانکہ حقیقت انھیں پوری طرح معلوم تھی کہ شرک اللہ کے ہاں ناقابل معافی جرم ہے۔ اور مسلمان موحد ہونے کی بنا پر مشرکوں سے ہزار گناہ بہتر ہیں۔