مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا
یہودیوں میں سے کچھ وہ ہیں جو (تورات) کے الفاظ کو ان کے موقع محل سے ہٹا ڈالتے ہیں، اور اپنی زبانوں کو توڑ مروڑ کر اور دین میں طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے ہیں : سمعنا وعصینا۔ اور اسمع غیر مسمع۔ اور راعنا۔ حالانکہ اگر وہ یہ کہتے کہ : سمعنا واطعنا اور اسمع وانظرنا۔ تو ان کے لیے بہتر اور راست بازی کا راستہ ہوتا (٣٣) لیکن ان کے کفرکی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے، اس لیے تھوڑے سے لوگوں کے سوا وہ ایمان نہیں لاتے۔
یہودی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آیا کرتے تھے تو ان کی خباثتوں اور شرارتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ (۱)ہم نے سنا اور ساتھ ہی کہہ دیتے لیکن ہم نافرمانی کریں گے۔ یا اطعنا کے لفظ کو مروڑ کریوں ادا کرتے کہ وہ اطعنا کی بجائے عصینا ہی سمجھ میں آتا۔ (۲) جب کو ئی بات سمجھ میں نہ آتی اور کچھ پوچھنا درکار ہوتا تو اسمع کہتے اور ساتھ ہی یاد ل میں کہتے غیر سمع یعنی تم سن ہی نہ سکو یا بہرے ہوجاؤ۔ (۳) کبھی اسمع کی بجائے راعنا کہتے اورزبان کو موڑ دے کر راعینا یعنی ہمارے چرواہے کہہ دیتے۔ پھر آپس میں یہ بھی کہتے کہ اگر یہ واقعی نبی ہوتا تو اسے ہماری ان باتوں پر اطلاع ہوجانا یقینی تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی شرارتوں اور خباثتوں پر مطلع کردیا اور ساتھ ہی بتادیا کہ جو لوگ اپنی ضلالت میں اس درجہ پختہ ہوچکے اور ہٹ دھرم بن چکے ان سے ایمان لانے کی توقع عبث ہے۔ الا ماشاء اللہ