سورة القلم - آیت 17

إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا اسی طرح ہم نے ان کافروں کی بھی آزمائش کی ہے، ان باغ والوں نے قسمیں کھائی تھیں کہ صبح ہوتے ہی ہم اس کے میوے توڑیں گے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سیاہ رات اور كٹی ہوئی كھیتی: یہاں ان كافروں كی مثال بیان كی جا رہی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم كی نبوت كو جھٹلا رہے تھے كہ جس طرح یہ باغ والے تھے۔ قصہ یہ ہے كہ ایك شخص كا باغ تھا جو بھر پور فصل دیتا تھا۔ اس شخص كا دستور تھا كہ وہ جب بھی پھل كی فصل اٹھاتا۔ ایك حصہ تو اپنے گھر كی ضروریات كے لیے ركھ لیتا، دوسرا حصہ اپنے قریبی رشتے داروں اور ہمسائیوں میں تقسیم كر دیتا، اور تیسرا حصہ فقراء اور مساكین میں بانٹ دیتا۔ پھر جب اس شخص كا انتقال ہوگیا تو اس كے بیٹوں نے آپس میں قسمیں كھائیں كہ صبح سے پہلے ہی رات كے وقت پھل اتار لیں گے تاكہ فقیروں، مسكینوں اور سائلوں كو پتا نہ چلے۔ جو وہ آكھڑے ہوں اور ہمیں ان كو بھی دینا پڑے بلكہ سارا پھل اور میوے خود ہی لے آئیں گے۔ اپنی اس تدبیر كی كامیابی پر انھیں اتنا غرور تھا اور اس خوشی میں پھولے ہوئے تھے یہاں تك كہ خدا كو بھی بھول گئے۔ ان شاء اللہ تك كسی كی زبان سے نہ نكلا۔ اس لیے ان كی یہ قسم پوری نہ ہوئی۔ رات ہی رات میں ان كے پہنچنے سے پہلے آسمانی آفت نے سارے باغ كو جلا كر خاكستر كر دیا اور وہ باغ ایسا ہوگیا جیسے سیاہ رات اور كٹی ہوئی كھیتی۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشاد ہے كہ لوگو! گناہوں سے بچو، گناہوں كی شامت كی وجہ سے انسان اس روزی سے بھی محروم كر دیا جاتا ہے۔ جو اس كے لیے تیار كر دی گئی ہے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آیتوں كی تلاوت كی كہ یہ بہ سبب اپنے گناہ كے باغ كے پھل اور اس كی پیداوار سے بے نصیب ہوگئے۔ (ابن ابی حاتم)