لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ۚ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
بے شک تمہارے لیے کہ اللہ اور یوم آخرت سے ڈرتے ہو، ان لوگوں کی زندگی میں ایک بہترین نمونہ ہے اور جو شخص اس کی طرف سے منہ موڑے تو اللہ تعالیٰ تو انسانوں کے اعمال کا کچھ محتاج نہیں
سیدنا ابراہیم علیہ السلام كے ساتھیوں كے تین اوصاف : یہاں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم اور ان كے پیروكاروں كے تین اوصاف بیان فرمائے: (۱) انھوں نے شرك سے اور مشركوں سے دائمی قطع تعلق كر لیا۔ (۲) وہ اللہ پر توكل ركھتے تھے۔ (۳) وہ اپنے حق میں اعمال صالحہ كی دعائیں بھی كرتے تھے۔ یہ صفات بیان كرنے كے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم لوگ فی الواقع اللہ اور آخرت پر ایمان ركھتے ہو اور اس سے جزائے اعمال كی امید ركھتے ہو تو تمہیں بھی ان جیسے كام كرنے چاہئیں۔ اللہ بے نیاز ہے: یعنی جو اللہ تعالیٰ اور قیامت كی حقانیت پر ایمان ركھتا ہے۔ اسے ان كی اقتدا میں آگے بڑھ كر قدم ركھنا چاہیے۔ اور جو اللہ كے احكام سے روگردانی كرے وہ جان لے كہ اللہ اس سے بے پرواہ ہے۔ اور وہ سزاوار حمدوثنا ہے۔ جیسا كہ سورئہ ابراہیم میں فرمایا: ﴿اِنْ تَكْفُرُوْۤا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ﴾ ’’اگر تم اور تمام روئے زمین كے لوگ كفر پر اور خدا كے نہ ماننے پر اتر آئیں تو اللہ تعالیٰ كا كچھ نہیں بگاڑ سكتے۔ اللہ تعالیٰ سب سے غنی، سب سے بے نیاز اور سب سے بے پروا ہے۔ اور وہ تعریف كیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، غنی اسے كہا جاتا ہے جو اپنی غنا میں كامل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی كی یہ صفت ہے كہ وہ ہر طرح سے بے نیاز اور بالكل بے پروا ہے۔ اس كا كوئی ہمسر نہیں، اس كے مثل كوئی نہیں، وہ پاك ہے، اكیلا ہے، سب پر حاكم، سب پر غالب، سب كا بادشاہ، حمید ہے یعنی مخلوق اسے سراہ رہی ہے اس كے سوا كوئی معبود نہیں، اس كے سوا كوئی پالنے والا نہیں رب وہی ہے معبود وہی ہے۔