سورة الحشر - آیت 23

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ الملک ہے، القدوس ہے، السلام ہے، المومن ہے، المہیمن ہے، العزیز ہے، الجبار ہے، المتکبر ہے، اور اس ساجھے سے پاک ہے جو لوگوں نے اسکی معبودیت کے بنارکھے ہیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

آیت نمبر ۲۲ سے ۲۴ تك ان تین آیات میں اللہ تعالیٰ كی بہت سے جامع صفات بیان كر دی گئی ہیں تاكہ انسان كو اللہ تعالیٰ كی پوری معرفت حاصل ہو۔ اور وہ خود فراموشی اور غفلت سے بچا رہے۔ چند نام تو آیت ۲۲ میں گزر چكے مزید جو بیان ہوئے وہ یہ ہیں۔ اَلْمَلِکُ: یعنی علی الاطلاق بادشاہ پوری كائنات كا بادشاہ، اور بادشاہ كو یہ اختیار ہوتا ہے كہ وہ اپنی مملكت میں جو چاہے قانون رائج كرے اور اس كو نافذ كرے اور اس كی رعایا یا مملوك اس قانون كو تسلیم كرنے اور اس پر عمل كرنے كی پابند ہوتی ہے۔ القدوس: قدس كے معنی پاك و صاف ہونا ہے اور قدوس سے مراد وہ ذات ہے جوہر بری بات اور نقص سے پاك ہو اور بابركت بھی ہو۔ السلام: صحیح وسالم، اور بمعنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاك اور محفوظ رہنا۔ اسلام كے معنی سراسر سلامتی ہی سلامتی ہے، اور وہ دوسروں كو بھی سلامتی عطا كرنے والا ہے۔ المومن: امن بمعنی خوف وخطرہ سے محفوظ ہونا، امان دینے والا، امن عطا كرنے والا۔ المہیمن: مہیمن وہ ذات ہے (۱)جو كسی خوف سے امن دے۔ (۲)ہر وقت نگہبانی ركھے۔ (۳)كسی كا حق ضائع نہ ہونے دے۔ جیسے مرغی خطرہ كے وقت اپنے چوزوں كو اپنے پروں كے نیچے چھپا لیتی ہے۔ العزیز: بمعنی بالادست، بالا دست سے مراد وہ ہستی جس كے مقابلہ میں كوئی سر نہ اٹھا سكے۔ جس كی مزاحمت كرنا كسی كے بس میں نہ ہو، جس كے آگے سب بے بس، بے زور اور كمزور ہوں۔ الجبار: جبر میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں: (۱) زبردستی كرنا۔ (۲)اصلاح كرنا یعنی زبردستی اور دباؤ سے كسی چیز كی اصلاح كرنا، اور اللہ تعالیٰ جبار اس لحاظ سے ہے كائنات كے نظام كو بہ زور درست ركھنے والا ہے اور اپنے ارادوں كو جو سراسر حكمت پر مبنی ہوتے ہیں پوری قوت سے نافذ كرنے والا ہے۔ المتكبر: كے دو مفہوم ہیں، ایك یہ كہ كوئی شخص فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر بڑا بننے كی كوشش كر رہا ہو۔ دوسرا وہ جو فی الحقیقت بڑا ہو اور بڑا ہی ہو كر رہے۔ اور یہ صفت صرف اللہ ہی كے لیے سزا وار ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، عظمت میرا تہبند ہے اور كبریائی میری چادر ہے جو مجھ سے ان دونوں میں سے كسی ایک كو چھیننا چاہے گا میں اسے عذاب كروں گا۔ (مسلم: ۲۶۲۰، ابوداود: ۴۰۹۰) اللہ ان باتوں سے پاك ہے: یعنی جو لوگ اللہ كی ذات وصفات میں دوسروں كو بھی شریك بنا لیتے ہیں وہ اللہ پر بہتان باندھتے ہیں كیونكہ اللہ ایسی تمام باتوں سے پاك ہے، اس كے اختیارات وتصرفات میں كسی كو دخل نہیں۔