وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور (ان اموال فے کے وہ لوگ بھی مستحق ہیں) جو ان مہاجرین سے پہلے دار الہجرت میں مقیم ہیں اور وہ ایمان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں جو لوگ ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دیا جاتا ہے اس سے یہ اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے اور مہاجرین کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اور خواہ خود محتاج ہی کیوں نہ ہوں، اور جو لوگ اپنے طبعی بخل وحرص سے بچا لیے گئے تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انصار كی كمال فضیلت بیان فرمائی ہے جو مسلمانوں كے، ہجرت كر كے مدینہ آنے سے پیشتر بیعت عقبہ كی رو سے ایمان لا چكے تھے، اور انھوں نے مہاجر مسلمانوں کو آتے ہی اپنے گلے سے لگا لیا۔ اور مہاجرین كی آبادكاری میں وہ مثال قائم كی جس كی مثال پیش كرنے سے پوری دنیا كی تاریخ قاصر ہے۔ ان اولین انصار نے مہاجرین كو اپنی جائیداد گھر بار اور نخلستان میں شریك كر لیا۔ چنانچہ حدیث میں ہے: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ اس وقت انصار مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض كیا: ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں كھجور كے درخت تقسیم كر دیجئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہیں ہو سكتا (جائیداد تمہاری ہی رہے گی) تب انصار مہاجرین سے كہنے لگے اچھا ایسا كرو درختوں كی خدمت تم كرو، ہم پیداوار میں تمہیں شریك بنا لیتے ہیں، تب مہاجر كہنے لگے بہت خوب! ہم نے سنا اور مان لیا۔ (بخاری: ۲۳۲۵) ان كے ایثار كی یہ بھی ایك عجیب مثال ہے كہ ایك انصاری كے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نے ایك بیوی كو اس لیے طلاق دینے كی پیشكش كی كہ عدت گزرنے كے بعد اس سے اس كا دوسرا مہاجر بھائی نكاح كر لے۔ (بخاری: ۳۷۱۴) یعنی یہ اپنے مقابلے میں مہاجرین كو ترجیح دیتے تھے، خود بھوكے رہتے لیكن مہاجرین كو كھلاتے تھے۔ حدیث میں آتا ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس ایك مہمان آیا لیكن آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے گھر میں كچھ نہ تھا چنانچہ ایك انصاری اسے اپنے گھر لے گیا، گھر جا كر بیوی كو بتلایا تو بیوی كہنے لگی كہ گھر میں تو صرف بچوں كی خوراك ہے۔ انھوں نے باہم مشورہ كیا كہ بچوں كو تو آج بھوكا سلا دیں اور ہم خود بھی ایسے ہی كچھ كھائے بغیر سو جائیں گے۔ البتہ مہمان كو كھلاتے وقت چراغ بجھا دینا تاكہ اسے ہماری بابت علم نہ ہو كہ ہم اس كے ساتھ كھانا نہیں كھا رہے۔ صبح جب وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا كہ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں میاں بیوی كے لیے یہ آیت نازل فرمائی: (وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ)۔ (بخاری: ۴۸۸۹) مسند احمد اور مسلم میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، لوگو! ظلم سے بچو، قیامت كے دن یہ ظلم اندھیریاں بن جائے گا لوگو! بخیلی اور حرص سے بچو یہی وہ چیز ہے جس نے تم سے پہلے لوگوں كو برباد كر دیا اسی كی وجہ سے انھوں نے خون ریزیاں كیں اور حرام كو حلال بنا لیا۔ (احمد: ۳/۳۲۳، مسلم: ۲۵۷۸) حضرت ابو الہیاج اسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں كہ بیت اللہ كا طواف كرتے ہوئے میں نے دیكھا كہ ایك صاحب صرف یہی دعا پڑھ رہے ہیں: (اَللّٰہُمَّ قِنِیْ شُحَّ نَفْسِیْ) ’’اللہ مجھے میرے نفس كی حرص وآز سے بچا لے۔‘‘ آخر مجھ سے نہ رہا گیا میں نے كہا اپ صرف یہی دعا كیوں مانگ رہے ہیں؟ اس نے كہا جب اس سے بچاؤ ہوگیا تو پھر نہ زنا كاری ہو سكے گی نہ چوری اور نہ كوئی اور برا كام۔ اب جو میں نے دیكھا تو وہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ (ابن جریر)