وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ دادا (کسی وقت) نکاح کرچکے ہوں، تم انہیں نکاح میں نہ لاؤ، البتہ پہلے جو کچھ ہوچکا وہ ہوچکا۔ (١٨) یہ بڑی بے حیائی ہے، گھناؤنا عمل ہے، اور بے راہ روی کی بات ہے۔
زمانہ ٔ جاہلیت میں سوتیلے بیٹے اپنے باپ کی بیوی (یعنی سوتیلی ماں)سے نکاح کرلیتے تھے۔ اس سے روکا جارہا ہے۔ یعنی تمہاری سوتیلی مائیں بھی ماؤں ہی کے مقام پر ہیں۔ لہٰذا انھیں ورثہ کا مال سمجھنا اور ان سے زبردستی نکاح کرنا، ان کے ترکہ کے وارث بن بیٹھنا، یہ سب باتیں انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہیں، البتہ جو نکاح اس حکم کے آنے سے پہلے تک تم کرچکے ہو وہ کالعدم قرار دیے جائیں گے البتہ نہ ان سے پیداشدہ اولاد حرام ہوگی۔ وراثت کے احکام بھی ان پر لاگو ہونگے۔ لیکن اس حکم کے بعد تم پر سوتیلی ماؤں سے نکاح کرنا حرام ہے۔