أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم اس حکم سے ڈر گئے ہو کہ سرگوشی سے پہلے کچھ صدقات دے دیا کرو پھر جب تم نے ایسا نہ کیا، اور اللہ تعالیٰ نے تم کو معاف کردیا، تو اب تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كہ كیا تمہیں اس حكم كے باقی رہ جانے كا اندیشہ اور خوف تھا كہ یہ صدقہ كب تك واجب رہے گا۔ اچھا جب تم نے اسے نہ كیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرمایا (صدقہ كے حكم كے بعد منافقین تو بخل كی وجہ سے رك گئے اور مسلمان ویسے ہی سنبھل گئے۔ اس پر صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایك بار عمل كیا) صدقہ كی پابندی كا خاتمہ: جب مندرجہ بالا مقاصد حاصل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس حكم كو منسوخ فرما دیا اور ساتھ ہی مسلمانوں كو تاكید كی گئی كہ نماز اور زكوٰة كی ادائیگی كا پورا پورا خیال ركھیں اور اللہ اور اس كے رسول كی سچے دل سے اطاعت بجا لائیں اور ایسا كوئی كام نہ كریں جو ان كی منشا كے خلاف ہو۔ یعنی فرائض واحكام كی پابندی اس صدقے كا بدل بن جائے جسے اللہ نے تمہاری تكلیف كے لیے معاف فرما دیا ہے۔