أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں سرگوشیوں سے منع کیا تھا؟ وہ پھر وہی کرتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا؟ یہ لوگ آپس میں گناہ اور ظلم اور رسول کی نافرمانی کے خفیہ مشورے کرتے رہتے ہیں اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو ان الفاظ سے سلام کرتے ہیں جن الفاظ سے اللہ نے آپ پر سلام نہیں بھیجا، اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں اس پر اللہ ہمیں کیوں عذاب نہیں دیتا ؟ ان کے لیے جہنم ہی کافی ہے اس میں یہ لوگ داخل ہوں گے سو وہ بہت ہی براٹھکانہ ہے (٣)۔
اس سے مدینے كے یہودی اور منافقین مراد ہیں جب مسلمان ان كے پاس سے گزرتے تو یہ باہم سر جوڑ كر اس طرح سرگوشیاں اور كانا پھوسی كرتے كہ مسلمان یہ سمجھتے كہ شاید ان كے خلاف كوئی سازش كر رہے ہیں یا مسلمانوں پر كسی لشكر نے حملہ كر كے انہیں نقصان پہنچایا ہے۔ جس كی خبر ان كے پاس پہنچ گئی ہے۔ مسلمان ان چیزوں سے خوف زدہ ہو جاتے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح سر گوشیاں كرنے سے منع فرمایا لیكن كچھ ہی دنوں بعد انھوں نے پھر یہ مذموم سلسلہ شروع كر دیا، مذکورہ آیت میں ان كے اسی كردار كو بیان كیا جا رہا ہے۔ كفار كی سرگوشیاں: یعنی ان كی سرگوشیاں نیكی اور تقویٰ كی باتوں میں نہیں ہوتیں بلكہ گناہ زیادتی اور معصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ہوتی ہیں۔ مثلاً ایك دوسرے كو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی نافرمانی پر اكسانا۔ یہود كا آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو اَلسَّامُ عَلَیْكَ كہنا: یعنی اللہ نے تو سلام كا طریقہ یہ بتایا كہ تم السلام علیكم ورحمة اللہ كہو۔ لیكن یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس كی بجائے كہتے۔ السام علیكم یا علیك (تم پر موت وارد ہو) نعوذ باللہ۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان كے جواب میں یہ فرمایا كرتے تھے۔ وَعَلَیْكُمْ یا عَلَیْكَ (اور تم پر بھی ہو) اور مسلمانوں كو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاكید فرمائی كہ جب كوئی اہل كتاب تمہیں سلام كرے تو تم جواب میں وعلیك كہا كرو یعنی عَلَیْكَ مَا قُلْتَ ’’تو نے جو كہا ہے وہ تجھ پر ہی وارد ہو۔‘‘ (بخاری: ۶۹۲۶) اللہ سزا كیوں نہیں دیتا: یعنی وہ آپس میں یا اپنے دلوں میں كہتے كہ اگر یہ سچا نبی ہوتا تو اللہ تعالیٰ یقینا ہماری اس قبیح حركت پر ہماری گرفت ضرور فرماتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا كہ اگر اللہ نے اپنی مشیئت اور حكمت بالغہ كے تحت دنیا میں ان كی فوری گرفت نہیں فرمائی تو كیا وہ آخرت میں جہنم كے عذاب سے بھی بچ جائیں گے۔ نہیں، یقینا نہیں، جہنم ان كی منتظر ہے جس میں وہ داخل ہوں گے۔