سورة المجادلة - آیت 1

قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے معاملہ میں آپ سے جھگڑا کررہی ہے اور اللہ کی جناب میں شکایت وفریاد کررہی ہے (١) اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے بے شک اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ظہار كے احكام كا پس منظر: جاہلیت میں یہ دستور تھا كہ جب میاں بیوی میں لڑائی ہوجاتی تو خاوند غصہ كی حالت میں اپنی بیوی كو یوں كہہ دیتا: (أَنْتِ عَلَیَّ كَظَہرِ اُمِّیْ) یعنی تو مجھ پر میری ماں كی پیٹھ كی طرح ہے۔ تو اسے دائمی طلاق سمجھا جاتا تھا۔ جس كے بعد دونوں میں میاں بیوی كے مل بیٹھنے كی كوئی صورت باقی نہ رہتی تھی۔ اس بیہودہ رسم كے متعلق پہلے سورئہ احزاب كی آیت نمبر ۴ میں مسلمانوں كو یہ تو بتایا جا چكا تھا كہ كسی كے ظہار كرنے سے یعنی اپنی بیوی كو ماں كی پیٹھ كی طرح كہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی اور نہ ہی اللہ نے ایسا كوئی قانون بنایا ہے، مگر اس شرعی حكم كی كوئی تفصیل نہیں دی گئی تھی۔ ایك انصاری اوس بن صامت رضی اللہ عنہ اور اس كی بیوی خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا میں جھگڑا ہوا تو اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے غصہ میں آكر یہی ظہار كے الفاظ كہہ دئیے جس كا فریقین میں معروف مفہوم ابدی طلاق تھا۔ بعد میں زوجین كو بہت ملامت ہوئی۔ اور چونكہ اولاد بھی تھی۔ لہٰذا اس اولاد كے مستقبل نے كئی خطرات سامنے لا كھڑے كیے۔ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس كا حكم پوچھا، لیكن چونكہ تاحال ظہار كا كوئی واضح حكم نازل نہ ہوا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا كہ میں سمجھتا ہوں كہ تو اس پر حرام ہوگئی اس پر خولہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے كہنے لگی، یا رسول اللہ! میرے خاوند نے طلاق كا لفظ تو نہیں بولا۔ میں نے جوانی تو اس كے ہاں گزار دی۔ اب بڑھاپا كس كے پاس گزاروں گی۔ نیز میری اوس سے اولاد بھی ہے اسے اپنے پاس ركھوں تو اخراجات كی متحمل نہیں ہو سكتی اور اگر اس سے دستبردار ہو جاؤں تو اولاد بے توجہی كی نظر ہو جائے گی۔ وہ ساتھ ہی ساتھ روتی بھی جاتی تھی اور یہ كہتی بھی جاتی تھی كہ مجھے كوئی بہتر صورت بتائیے اور یہ بھی كہ اللہ میرے حق میں كوئی بہتر فیصلہ نازل فرمائے۔ اللہ نے اس كی فریاد سن لی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت كی ابتدائی آیات نازل فرمائیں۔ (مسند احمد: ۶/ ۴۱۰، ابو داؤد: ۲۲۱۴) بخاری ومسند وغیرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم كا یہ فرمان اس طرح منقول ہے كہ ’’بابركت ہے وہ خدا جو ہر اونچی نیچی آواز كو سنتا ہے، یہ شكایت كرنے والی بی بی صاحبہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم كی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اس طرح سرگوشیاں كر رہی تھیں كہ كوئی لفظ تو كان تك پہنچ جاتا۔ اور اكثر باتیں باوجود اسی گھر میں موجود ہونے كے میرے كانوں تك نہیں پہنچتی تھیں۔ اپنے میاں كی شكایت كرتے ہوئے فرمایا كہ یا رسول اللہ! میری جوانی تو ان كے ساتھ كٹی، بچے ان سے ہوئے اب جب كہ میں بڑھیا ہو گئی ہوں اولاد كے قابل نہ رہی تو میرے میاں نے مجھ سے ظہار كر لیا۔ اے اللہ! میں تیرے سامنے اپنے اس دکھڑے كا رونا روتی ہوں۔ ابھی یہ بی بی صاحبہ گھر سے باہر نہیں نكلی تھیں كہ حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لے كر اترے، ان كے خاوند كا نام اوس بن صامت تھا۔ (تفسیر طبری: ۲۳/ ۲۲۶، حاكم: ۲/ ۴۸۱)