لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ
لیکن جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہوئے عمل کرتے ہیں، ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اللہ کی طرف سے میزبانی کے طور پر وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ وہ نیک لوگوں کے لیے کہیں بہتر ہے۔
ان دو آیات میں کافر اور مسلمان کی دنیاوی اور اخروی زندگی کا مقابلہ پیش کیا گیا ہے۔ یعنی ایک کافر کی چند روزہ زندگی عیش و آرام سے گزرتی ہے۔ حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہوتا اسے بھی دنیا میں کئی طرح کے غم اور تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، لیکن آخرت میں وہ ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا۔ اور مسلمان کی چند روزہ زندگی مشکلات و مصائب ۔ دکھ اور تنگدستی میں گزرتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا اسے بھی دنیا میں خوشی اور خوشحالی کے لمحات میسر آتے رہتے ہیں۔ لیکن آخرت میں اس کے لیے ہر طرح کی نعمتیں ہی نعمتیں اور عیش و عشرت کی زندگی ہوگی تو بتائیے ان دونوں میں سے کون فائدہ میں رہا۔ اللہ کے ہاں مہمانی سے مراد یہ ہے کہ اہل جنت کو اپنے کھانے پینے کے لیے خود کچھ مشقت و تردد کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلکہ انھیں عزت و احترام سے ہر چیز بیٹھے بٹھائے مل جائے گی۔ دنیا میں جس نے اسلام کی راہ میں جس قدر دکھ اور مصائب برداشت کیے ہوں گے اتنا ہی انھیں آخرت میں بہتر سے بہترانعامات سے نوازا جائے گا۔