لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو لوگ اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔
اس آیت میں ایسے لوگوں کے لیے سخت و عید ہے جو صرف اپنے کاموں پر خوش ہی نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کی ناکردہ کاموں پر بھی تعریف کی جائے یہ بیماری جس طرح عہد رسالت میں تھی آج بھی جاہ پسند قسم کے لوگوں میں اور پروپیگنڈے اور دوسرے ہتھکنڈوں کے ذریعے لیڈر بننے والوں میں یہ بیماری عام ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہودی کتاب الٰہی میں تحریف و کتمان کے مجرم تھے۔ مگر وہ اپنے کرتوتوں پر خوش ہوتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بلا بھیجا اور ان سے دین کی کوئی بات پوچھی، انھوں نے حق چھپایا اور غلط بات بتادی، پھر سمجھے کہ ہم (نے کمال کیا) آپ کے نزدیک قابل تعریف ٹھہرے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا بھی اور حق بات چھپا بھی لی۔ اس پر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ (بخاری ۴۵۶۸/مسلم ۲۷۷۸) جیسے یہودی حق بات چھپا کر خوش ہوتے تھے یہی حال آج کے باطل گروہوں کا بھی ہے، وہ بھی لوگوں کو گمراہ کرکے، غلط راہنمائی کرکے اور آیات الٰہی میں معنوی تحریف و تلبیس کرکے بڑے خوش ہوتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ اہل حق ہیں اور ان کی فریب کاری کی تعریف کی جائے تو ان کا وہی حشر ہوگا جو اس آیت میں مذکور ہے۔ یعنی دردناک عذاب۔