سورة آل عمران - آیت 185

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

(۱) اس آیت میں ایک تو اس اٹل حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ موت سے کوئی نہیں بچ سکتا ۔ (۲) دنیا میں جس نے اچھا یا بُرا جو کچھ کیا ہوگا، اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (۳) کامیابی کا معیار بتلایا گیا ہے کہ کامیاب اصل میں وہ ہے جس نے دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کرلیا جس کے نتیجے میں وہ جہنم سے دور اور جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ (۴) دنیا کی زندگی سامان فریب ہے جو اس سے دامن بچا کر نکل گیا، وہ خوش نصیب اور جو اس کے فریب میں پھنس گیا وہ ناکام و نامراد ہے۔ دنیا کی زندگی ایک فتنہ اور ایک آزمائش ہے ۔ یہ دنیا ہر شخص کے لیے دارالامتحان ہے۔ اس کی زندگی عیش و عشرت سے گزررہی ہو یا تنگی ترشی میں، صحت مند ہویا بیمار، عالم ہو یا جاہل۔ غرضیکہ انسان ہر حال میں اور ہر لمحہ امتحان سے گزررہا ہے۔ اور موت کے ساتھ ہی اُسے یہ معلوم ہوجائے گا کہ وہ اس امتحان میں کامیاب رہا یا ناکام۔ مشکلات کے فوائد: مسلمانوں کو اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے لیے آمادہ کیا جارہا ہے اور آزمائش کے فوائد بتاکر صبرواستقامت کا درس دیا جارہا ہے۔ آزمائش سے اخلاقی کمزوریوں کا علاج ہوتا ہے۔ درجات بلند ہوتے ہیں۔ مومنوں اور منافقوں میں امتیاز ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا :’’دنیا میں زقوم کے ایک قطرہ سے ساری دنیا کا کھانا زہر ہوجائے اور دوزخ میں تو کھانا ہی زقوم کا ملے گا۔‘‘ (ترمذی: ۲۵۸۵، ابن ماجہ: ۴۳۲۵) اور فرمایا: لذتوں کو توڑنے والی موت کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔ (ترمذی: ۲۳۰۷، ابن ماجہ: ۴۲۵۸)