وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور جو لوگ اس (مال) میں بخل سے کام لیتے ہیں جو انہیں اللہ نے اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے، اس کے برعکس یہ ان کے حق میں بہت بری بات ہے، جس مال میں انہوں نے بخل سے کام لیا ہوگا، قیامت کے دن وہ ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔ (٦١) اور سارے آسمان اور زمین کی میراث صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی فراوانی اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ اللہ ان پر خوش ہے۔ اگر اللہ کے دیے ہوئے مال سے اس کا حق ادا نہ کیا جائے اور بُخل سے کام لیا جائے تو قیامت کے دن یہی مال و دولت اس کے لیے عذاب بن جائے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس شخص کو اللہ مال عطا فرمائے، پھر وہ اس سے زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل میں ہوگا جس کی آنکھوں پر دوکالے نقطے ہوں گے وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا، اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا، میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی۔ (مسلم: ۹۸۸، بخاری: ۴۵۶۵) ہر چیز اللہ کی میراث ہے: یعنی جو مال تم چھوڑ کر مر جاؤ گے وہ تمہارے وارثوں کا ہوگا اور بالآخر اللہ ہی کی میراث میں چلا جائے گا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ’’انسان کہتا رہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے، یہ میرا مال ہے حالانکہ اس کا مال وہی ہے جو اس نے کھالیا، پہن لیا، اللہ کی راہ میں دے دیا۔ باقی مال تو اس کے وارثوں میں ہوگا۔‘‘ (مسلم: ۲۹۵۸، ترمذی: ۲۳۴۲) آپ سے کسی نے سوال کیا کہ ’’افضل صدقہ کونسا ہے‘‘ آپ نے فرمایا ’’جو تو تندرستی کی حالت میں مال کی خواہش، مالدار ہونے کی اُمید اور محتاجی کا ڈر رکھتے ہوئے کرے اور اتنی دیر مت لگا کہ حلق میں دم آجائے تو اس وقت یوں کہنے لگے کہ اتنا مال فلاں کو دے دینا اور اتنا فلاں کو، حالانکہ اب تو وہ فلاں کا ہی ہوچکا۔‘‘ (بخاری: ۲۷۴۸)