سورة الفتح - آیت 17

لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہاں اندھے پر کچھ گناہ نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کچھ گناہ ہے اور نہ بیمار پر (اگریہ لوگ جہاد میں شریک نہ ہوں) اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو اللہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور جو شخص روگردانی کرے گا تو اللہ اسے دردناک عذاب کی سزا دے گا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جہاد فرض عین نہیں: یہ منافق تو محض حیلے بہانے کرتے ہیں اصل لوگ جنہیں جہاد سے رخصت ہے وہ یہ ہیں جو جسمانی طور پر تندرست نہ ہوں۔ مثلاً اندھے، لنگڑے، اپاہج، بیمار، نابالغ، بچے اور ضعیف و ناتواں بوڑھے، بزرگ مجنون اور فاتر العقل وغیرہ۔ ان کے علاوہ جو بیماریاں ہیں وہ عارضی عذر ہیں جب تک وہ واقعی بیمار ہے، شرکت جہاد سے مستثنیٰ ہے۔ بیماری دور ہوتے ہی وہ حکم جہاد میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار جنتی ہے۔ اور جو جہاد سے بے رغبتی کرے دنیا کی طرف سراسر متوجہ ہو جائے معاش کے پیچھے آخرت کو بھول جائے اس کی سزا دنیا میں ذلت اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔