سورة الفتح - آیت 4

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ خدا ہی تو تھا جس نے مسلمانوں کے افسردہ دلوں میں اپنی طرف سے قوت اور اطمینان کی روح پیدا کردی تاکہ ان کی ایمانی قوت میں تازگی پیدا ہوجائے۔ زمین کے جان فروشان حق اور آسمان کے ملائکہ نصرت دونوں کی فوجیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں بے شک وہ علیم وحکیم ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اطمینان و رحمت سکینہ کے معنی ہیں اطمینان، رحمت اور وقار۔ حدیبیہ والے دن جن با ایمان صحابہ رضی اللہ عنہ نے اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لی۔ یعنی اس اضطراب کے بعد جو مسلمانوں کو شرائط صلح کی وجہ سے لاحق ہوا۔ اللہ نے ان کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی۔ جس سے ان کے دلوں کو اطمینان، سکون اور مزید ایمان حاصل ہوا۔ اس سے امام بخاری رحمت اللہ علیہ وغیرہ ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ ایمان بڑھتا بھی ہے اور اسی طرح گھٹتا بھی ہے۔ اللہ کے لشکر: یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے کسی لشکر (مثلاً فرشتوں) سے کفار کو ہلاک فرما دے۔ لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت ایسا نہیں کیا۔ اور اس کے بجائے مومنوں کو قتال و جہاد کا حکم دیا۔ جس سے اس کی حجت بھی پوری ہو جائے اور دلیل بھی سامنے آ جائے۔ آسمان و زمین کے فرشتے اور اسی طرح دیگر ذی شوکت و قوت لشکر سب اللہ کے تابع ہیں۔ اور ان سے جس طرح چاہتا ہے کام لیتا ہے۔ بعض دفعہ وہ ایک کافر گروہ کو ہی دوسرے کافر گروہ پر مسلط کر کے مسلمانوں کی امداد کی صورت پیدا فرما دیتا ہے۔ مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ اے مومنو! اللہ تعالیٰ تمہارا محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنے پیغمبر اور اپنے دین کی مدد کا کام کسی بھی گروہ اور لشکر سے لے سکتا ہے۔ (ابن کثیر و ایسر التفاسیر)