سورة الأحقاف - آیت 22

قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

انہوں نے کہا توہمار پاس اس لیے آیا کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے برگشتہ کردے؟ پھر اگر تو سچا ہے تو جس دن کے عذاب کا ہم سے وعدہ کرتا ہے اسے ہم پر لے آ۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قومِ عاد پر عذاب بادل کی شکل میں نمودار ہوا تھا: یہ لوگ کافی مدت سے بارش کو ترس رہے تھے ۔ ایک کالی گھٹا اٹھی اور اپنے علاقے کی طرف آگے بڑھتی دیکھی تو خوشی سے جھوم اٹھے۔ بارش کے بعد سیرابی اور خوشحالی کی توقعات باندھنے لگے۔ انھیں کیا خبر تھی کہ یہ گھٹا باران رحمت کی گھٹا تھی یا ان کو نیست و نابود کرنے کے لیے اللہ کا عذاب کالی گھٹا اور آندھی کی صورت میں ان کی سروں پر پہنچنے والا تھا یہ آندھی نہایت تیز رفتار، سخت ٹھنڈی تھی جو آٹھ دن اور سات راتیں مسلسل ان پر چلتی رہی۔ یہ وہ قہر الٰہی تھا جن کے آنے کی وہ جلدی مچا رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے مشرق سے آنے والی ہوا سے مدد دی گئی اور عاد کو مغرب سے آنے والی ہو اسے ہلاک کیا گیا۔(بخاری: ۳۲۰۵) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی ابریا آندھی دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ متغیر ہو جاتا اور خوف کی سی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہو جاتی۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے چین رہتے کبھی باہر نکلتے کبھی اندر داخل ہوتے کبھی آگے ہوتے کبھی پیچھے پھر جب بارش ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان کا سانس لیتے۔ حضرت عائشہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ لوگ تو بارش دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! مجھے یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو۔ ایک قوم (عاد) پر آندھی کا عذاب آیا۔ اس قوم نے بھی بادل دیکھ کر کہا تھا ’’ یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔ (بخاری: ۳۲۰۶، مسلم: ۸۹۹)