فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
پھر ایسا ہوا کہ آدم نے اپنے پروردگار کی تعلیم سے چند کلمات معلوم کرلیے (جن کے لیے اس کے حضور قبولیت تھی) پس اللہ نے اس کی توبہ قبول کرلی اور بلاشبہ وہی ہے جو رحمت سے درگزر کرنے والا ہے اور اس کی درگزر کی کوئی انتہا نہیں
تمام انبیاء نے اللہ سے براہ راست دعا مانگی ہے کوئی وسیلہ یا واسطہ نہیں پکڑا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات حضرت آدم کے دل میں ڈال دی کہ اللہ تعالیٰ بار بار رحم کرنیوالے ہیں۔ آدم شرمندہ ہوئے اور معافی مانگنے لگے معافی کی دعا بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھائی۔ جو یہ ہے: ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ﴾ (الاعراف: ۲۳) ’’اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہو جائیں گے۔‘‘ حدیث: اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے کہ دن کو گناہ کرنے والا رات کو توبہ کرے اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات کو گناہ کرنے والا دن کو توبہ کرے اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سورج مغرب سے نہ نکل آئے۔ (مسلم:۲۷۵۹)