فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ
پھر (باوجود اس دردناک عذاب کے) نہ تو آسمان ان پر رویا اور نہ زمین ہی نے آنسو بہائے اور نہ انہیں اپنی حالت کی اصلاح کی مہلت دی گئی (کیونکہ مہلت پوری ہوگئی اور آسمان وزمین کا خداوند جب ناراض ہوجائے تو پھر تمام کائنات ہستی میں کون ہے جوان بدبختوں سے راضی ہوسکتا ہے؟)
زمین آسمان نہ روئے: کیوں کہ ان پاپیوں کے نیک اعمال تھے ہی نہیں جو اوپر چڑھتے اور ان کا سلسلہ منقطع ہونے پر آسمان روتے نہ زمین میں ان کی ایسی جگہیں تھیں کہ جہاں بیٹھ کر یہ اللہ کی عبادت کرتے ہوں اور آج انھیں نہ پا کر زمین کی وہ جگہ ان کا ماتم کرتی۔ مطلب یہ کہ آسمان و زمین میں سے کوئی بھی ان کی ہلاکت پر رونے والا نہیں۔ (فتح القدیر) مسند ابو یعلیٰ موصلی میں ہے، ’’ہر بندے کے لیے آسمان میں دو دروازے ہیں، ایک سے تو اس کی روزی اترتی ہے۔ اور دوسرے سے اس کے اعمال اور اس کے کلام چڑھتے ہیں، جب یہ مر جاتا ہے اور وہ عمل و رزق کو گم شدہ پاتے ہیں تو روتے ہیں، پھر اسی آیت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت فرمائی۔ (ترمذی: ۳۲۵۵)