إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
(وہ وقت یاد کرو) جب تم منہ اٹھائے چلے جارہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اور رسول تمہارے پیچھے سے تمہیں پکار رہے تھے، چنانچہ اللہ نے تمہیں (رسول کو) غم ( دینے) کے بدلے (شکست کا) غم دیا، تاکہ آئندہ تم زیادہ صدمہ نہ کیا کرو، (٥٠) نہ اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے، اور نہ کسی اور مصیبت پر جو تمہیں پہنچ جائے۔ اور اللہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔
اُحد کے دن مسلمانوں کو کیا کیا غم پہنچے؟ کفار نے مسلمانوں کے درہ کو چھوڑ دینے پر اچانک پیچھے سے حملہ کردیا۔ جس سے مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی اور مسلمانوں کی اکثریت نے راہ فرار اختیار کی یہ اسی وقت کا نقشہ بیان کیا جارہا ہے ’’ تُصْعِدُوْنَ‘‘ یعنی اپنی رو میں بھاگ جانا۔ رسول اللہ اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے ر ہ گئے اور مسلمانوں کو پکارتے رہے ’’اللہ کے بندو میری طرف لوٹ کر آؤ‘‘ لیکن پریشانی کے عالم میں یہ پُکار کون سنتا اسی کوتاہی یعنی رسول اللہ کی نافرمانی کرنے پرجو انھیں رنج پہنچا اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شکست دے کر انھیں رنج پہنچایا۔ (۲) منافقوں کے لوٹ جانے کا رنج (۳) اپنے شہیدوں کا۔ (۴) اپنے زخمیوں کا۔ (۵) رسول اللہ کی شہادت کی خبر کا۔ (۶) اس جنگ کے انجام کا سب سے بھاری غم رسول اللہ کی شہادت کی افواہ پر پہنچا۔ (بخاری: ۴۰۶۷) اللہ نے ڈھارس بندھائی: یعنی یہ غم پہ غم اس لیے دیے کہ تمہارے اندر شدائد برداشت کرنے کی قوت اور عزم و حوصلہ پیدا ہو۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کا ایسا ضابطہ بیان کیا ہے جو ایک مسلمان کو کسی بھی وقت مشکل میں کم ہمت ہونے سے بچاتا ہے۔ کہ جو تکلیف بھی تمہیں پہنچتی ہے ۔ وہ اللہ کے علم میں ہوتی ہے۔ اور صرف وہی تکلیف و رنج تمہیں پہنچ سکتا ہے جو پہلے سے تمہارے مقدر میں ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پر افسوس کرنے کی بجائے اللہ پر بھروسہ رکھو اور اسی کی طرف لو لگاؤ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ لِکَیْلَا تَأْسُوْا عَلٰی مَا فأْتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَا اٰتٰکُمْ‘‘ (الحدید: ۲۳) ’’تاکہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس پر افسوس نہ کرو۔ اور جب اللہ تمہیں کوئی بھلائی عطا کرے تو اس پر پھولے نہ سمایا کرو۔‘‘ یعنی ایک مومن کی شان یہ ہے کہ نہ تو مصیبت کے وقت وہ ڈگمگاتا ہے اور نہ آس توڑتا ہے اور نہ خوشی کے وقت حد سے زیادہ خوش ہوکر اترانے ہی لگتا ہے بلکہ وہ ہر حال میں اللہ کا شکر کرنے والا اور معتدل مزاج رکھنے والا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں: (۱) ابوہریرہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فکر مند ہوتے تو آسمان کی طرف نظر اٹھاکر کہتے ’’ سبحان اللہ وبحمدہ۔‘‘ اے زندہ رہنے والے اور قائم رہنے والے۔ (بخاری: ۶۴۰۵) (۲) ’’ لاحولا ولا قوۃ الا باللہ‘‘ کثرت کے ساتھ پڑھنے سے آدمی ذہنی اور نفسیاتی پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے۔ (ابن ماجہ: ۳۸۲۴) یہ آزمودہ نسخہ ہے۔ ہر مصیبت سے نجات کی دعا۔ ’’ الحمد للّٰہ الذی عافانی‘‘ اللہ کا شکر جس نے مصیبت سے بچائے رکھا۔ (ابن ماجہ: ۳۸۹۲)