وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں کے ساتھ فرعون اور ان کے درباریوں کے پاس بھیجا اور اس نے جاکر کہا میں رب العالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں
یہاں موسیٰ علیہ السلام کا ذکر اس نسبت سے آیا ہے کہ فرعون بھی اپنے مقابلہ میں موسیٰ علیہ السلام کو حقیر سمجھتا تھا۔ جس طرح قریش مکہ اپنے سرداروں کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیر سمجھ رہے تھے۔ اس قصہ کے ذکر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ انھوں نے صبر و عزم سے کام لیا، آپ بھی کفار مکہ کی ایذاؤں اور ان کے ناروا رویوں سے دل برداشت نہ ہوں۔ صبر اور حوصلے سے کام لیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح بالآخر فتح و کامرانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے۔ اور یہ اہل مکہ فرعون اور اس کے لشکروں کی طرح ناکام و نامراد ہوں گے۔