وَلَوْلَا أَن يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَن يَكْفُرُ بِالرَّحْمَٰنِ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ
اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ ایک ہی طریقے کے ہوجائیں گے تو سازوسامان دنیا توہمارے یہاں اس درجہ حقیر وذلیل ہے کہ جو منکران حق اور پرستار ان دنیا میں ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنادیتے ہیں اور چاندی ہی کی سیڑھیاں ہوتیں جن پر چڑھ کر وہ چھت پر پہنچتے۔
رب کی رحمت بہتر ہے: اس رحمت سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں۔ یعنی دنیا کا مال و دولت، ساز و سامان سونا چاندی، جس کو یہ لوگ کسی انسان کی عظمت کا معیار قرار دے رہے ہیں اللہ کی نگاہ میں اتنی حقیر چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام کافروں کے گھر، ان کی چھتیں، ان کے دروازے، ان کے تکیے اور چار پائیاں، ان کی سیڑھیاں، غرض کہ ان کی ایک ایک چیز سونے چاندی کی بنا دیتا۔ لیکن اس میں یہ خطرہ ضرور تھا کہ تمام انسان ہی کفر کا راستہ اختیار کر لیتے۔ کیوں کہ انسان فطرۃ مال و دولت کے لیے بہت حریص واقع ہوا ہے۔ دنیا کی حقارت اس حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اگر دنیا کی اللہ کے ہاں اتنی حیثیت بھی ہوتی جتنی ایک مچھر کے پَر کی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس دنیا سے ایک گھونٹ پانی بھی پینے کو نہ دیتا۔ (ترمذی: ۲۳۲۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’سونے چاندی کے برتنوں میں نہ کھاؤ پیو۔ یہ دنیا میں ان کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے ہیں۔‘‘ (بخاری: ۵۴۲۶، مسلم: ۱۴۷۹)