وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ
اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک رسول: یعنی ان کا امتیاز بھی وصف رسالت ہی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ بشری خصائص سے بالاتر اور خدائی صفات سے متصف ہیں کہ انھیں موت سے دوچارنہ ہونا پڑے گا۔ عارضی شکست کا سبب: جنگ اُحد میں شکست کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ کے بارے میں کافروں نے یہ افواہ اڑادی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیے گئے ہیں(نعوذباللہ) مسلمانوں میں جب یہ خبر پھیلی تو اس سے بعض مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کافروں کے ہاتھوں قتل ہوجانا یا ان پر موت کا وارد ہوجانا کوئی نئی بات تو نہیں ہے ۔ پچھلے انبیاء علیہم السلام بھی قتل اور موت سے ہم کنار ہوچکے ہیں۔ اگر آپ بھی بالفرض اس سے دوچار ہوجائیں تو کیا تم اس دین سے ہی پھر جاؤ گے، یا د رکھو جو اس دین سے پھر جائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سانحہ وفات کے وقت جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شدت جذبات میں وفات نبوی کا انکار کررہے تھے، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑے ہوکر انہی آیات کی تلاوت کی جن سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی متاثر ہوئے اور انھیں یوں لگا کہ جیسے یہ آیات ابھی ابھی اتری ہیں۔ نیک بدلہ والے لوگ وہ ہیں جنھوں نے ثابت قدمی اور صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا اور شکرگزاری کا رویہ اپنایا۔ (بخاری: ۴۴۵۴)