سورة الزخرف - آیت 18

أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا (اللہ کے حصہ میں وہ اولاد آئی ہے) جوزیور میں نشوونما پاتی ہے اور بحث وجدال میں اپنا مدعاصاف نہیں بیان کرپاتی؟۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کے لیے بیٹیاں: عورتوں کی دو صفات کا تذکرہ یہاں بطور خاص کیا گیا ہے (۱) ان کی تربیت و نشونما زیورات اور زینت میں ہوتی ہے۔ یعنی شعور کی آنکھیں کھولتے ہی ان کی توجہ حسن افزا اور اجمال افزا چیزوں کی طرف ہو جاتی ہے۔ مقصد بیان کرنے کا یہ ہے کہ بچپن سے مرتے دم تک وہ بناؤ سنگھار کی محتاج سمجھی جاتی ہے۔ جسمانی قوت کے لحاظ سے کمزور ہوتی ہے۔ ایسی کمزور جنس کو اللہ کی اولاد تجویز کرتے ہیں۔ اور لڑکے جو صاحب عزم و ہمت اور مرد میدان ہوتے ہیں اپنے لیے وہ پسند کرتے ہیں۔ (۲) اگر کسی سے بحث و تکرار ہو تو اپنی بات بھی صحیح طریقے سے (فطری حجاب کی) وجہ سے واضح نہیں کر سکتیں نہ فریق مخالف کے دلائل کا توڑ ر ہی کر سکتی ہے۔ یہ عورت کی دو فطری کمزوریاں ہیں جن کی بنا پر مرد حضرات ایک گونہ فضیلت رکھتے ہیں۔