وَلَقَدْ كُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِن قَبْلِ أَن تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
اور تم تو خود موت کا سامنا کرنے سے پہلے ( شہادت کی) موت کی تمنا کیا کرتے تھے۔ (٤٧) چنانچہ اب تم نے کھلی آنکھوں اسے دیکھ لیا ہے۔
موت اور دشمن سے مڈبھیڑ کی آرزو نہ کرو: یہ اشارہ ان صحابہ کی طرف ہے جو جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے احساس محرومی رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ اگر اللہ پھر ایسا موقع فراہم کر ے تو ہم اللہ کی راہ میں جان دے کر شہادت کے مراتب حاصل کریں۔ انہی صحابہ نے جنگ احد میں جوش جہاد میں مدینہ سے باہرنکل کر جنگ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر جب جنگ ہوئی تو ایسے صحابہ میں سے بھی کچھ بھاگ نکلے۔ اس آیت میں انہی سے خطاب ہے کہ جو چیز تم چاہتے تھے وہی تمہیں پیش آئی ہے اب پیچھے ہٹنے کا کیا مطلب ہے ؟ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا مت کرو اور جب ایسا موقع آجائے تو پھر ثابت قدمی دکھاؤ‘‘ (بخاری: ۳۰۲۵) ایک حدیث میں وارد ہے کہ جنت تلواروں کے سایہ میں ہے۔ (مسلم: ۱۷۴۲) اب اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا، یعنی تلواروں کی چمک،نیزوں کی تیزی، تیروں کی یلغار اور جان بازوں کی صف آرائی میں تم نے موت کا خوب مشاہدہ کرلیا۔ (ابن کثیر: ۵۴۹)