وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ان کو حکم دیا کہ مشورہ کرکے تمام امور سرانجام دیں اور جو کچھ روزی انہیں دے رکھی ہی (١١) نیکی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں
مسلمانوں کی صفت بیان ہو رہی ہے کہ یہ اللہ کا حکم مانتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں، جس کا وہ حکم کرے بجالاتے ہیں اور جس سے وہ روکے، رک جاتے ہیں۔ نماز کے پابند ہوتے ہیں۔ جو سب سے اعلیٰ عبادت ہے۔ باہمی مشاورت: یعنی بڑے بڑے امور میں بغیر آپس کی مشاورت کے ہاتھ نہیں ڈالتے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم الٰہی ہوتا ہے کہ (شاورھم فی الامر) یعنی اہم کاموں میں ان سے مشورہ لیا کرو۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جہاد وغیرہ کے موقعہ پر لوگوں سے مشورہ کر لیا کرتے تھے تاکہ ان کے جی خوش ہو جائیں۔ اور اسی بنا پر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کر دیا گیا اور وفات کا وقت قریب آ گیا تو چھ آدمی مقرر کر دئیے کہ یہ اپنے مشورے سے میرے بعد کسی کو میرا جانشین مقرر کریں۔ ان چھ بزرگوں کے نام یہ ہیں۔ عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمن بن عوف ( رضی اللہ عنہم ) پھر سب نے باتفاق رائے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر مقرر کیا۔ پھر ان کا ایک اور وصف بیان فرمایا کہ جہاں یہ حقوق اللہ ادا کرتے ہیں۔ وہاں لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کمی نہیں کرتے۔ اپنے مال میں محتاجوں کا حصہ بھی رکھتے ہیں اور درجہ بدرجہ اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کے ساتھ سلوک و احسان کرتے رہتے ہیں۔