سورة الشورى - آیت 20

مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جوشخص آخرت کی کھیتی کا خوہش مند ہے ہم اس کے لیے اس کی کھیتی کو بڑھا دیتے ہیں اور جو کوئی دنیا کی کھیتی کا خواستگار ہوہم اسی میں سے اسے کچھ دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حرث کے معنی تخم ریزی کے ہیں۔ یہاں یہ لفظ اعمال کے ثمرات کے فوائد پر بطور استعارہ بولا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے اعمال و محنت کے ذریعے سے آخرت کے اجر و ثواب کا طالب ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی کھیتی میں اضافہ فرمائے گا کہ ایک ایک نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک بھی عطا فرمائے گا۔ الغرض آخرت کی چاہت جس کے دل میں ہوتی ہے۔ اس شخص کو نیک اعمال کی توفیق اللہ کی طرف سے عطا فرمائی جاتی ہے۔ اور جس کی تمام کوشش دنیا حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ آخرت کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوتی تو وہ دونوں جہان سے محروم رہتا ہے۔ دنیا کا ملنا اللہ کے ارادے پر موقوف ہے۔ ممکن ہے وہ ہزاروں جتن کرے اور دنیا سے بھی محروم رہ جائے، بد نیتی کے باعث عاقبت تو برباد کر ہی چکا تھا، دنیا بھی نہ ملی تو دونوں جہاں سے گیا۔ اور اگر تھوڑی سی دنیا مل بھی گئی تو کیا۔ سورہ بنی اسرائیل (۱۸) میں ارشاد فرمایا: ﴿مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ﴾ ’’جو شخص دنیا کا طالب ہو گا ایسے لوگوں میں سے ہم جسے چاہیں اور جتنا چاہیں گے دے دیں گے، پھر اس کے لیے جہنم تجویز کریں گے، جس میں وہ بد حال اور راندۂ درگاہ ہو کر داخل ہو گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’اس امت کو برتری اور بلندی کی نصرت اور سلطنت کی خوشخبری ہو ان میں سے جو شخص دینی عمل دنیا کے لیے کرے گا اسے آخرت میں کوئی حصہ نہ ملے گا۔ (احمد: ۵/ ۱۳۴، ابن حبان: ۴۰۵)