وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
پھر (ایسا ہوا کہ) ہم نے آدم سے کہا "اے آدم تو اور تیری بیوی دنووں جنت میں رہو جس طرح چاہو کھاؤ پیو، امن چین کی زندگی بسر کو، مگر دیکھو، وہ جو ایک دخرت ہے تو کبھی اس کے پاس بھی نہ پھٹکنا، اگر تم اس کے قریب گئے تو (نتیجہ یہ نکلے گا کہ) حد سے تجاوز کر بیٹھو گے، اور ان لوگوں میں سے ہوجاؤ گے جو زیادتی کرنے والے ہیں
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو تیسری فضیلت یہ دی کہ جنت کو اُن کا مسکن بنادیا۔ تاہم یہاں آباد کرنے میں بھی اس بات کا امتحان مقصود تھا کہ آدم اور اس کی اولاد شیطانی ترغیبات کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی کس قدر اطاعت کرتے ہیں اس آزمائش کے لیے جنت کے ایک درخت کا انتخاب کیا گیا اور کہا گیا کہ جنت میں تمام درختوں کے پھل کھاسکتے ہو۔ لیکن اس درخت کے پاس نہیں جانا۔