هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
وہ پروردگار جس نے تمہارا وجود مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر علقہ سے (یعنی جونک کی شکل کی ایک چیز سے) پھر ایسا ہوتا ہے کہ تم کو طفولیت کی حالت میں ماں کے شکم سے نکالتا ہے پھر بڑے ہوتے ہو اور سن تمیز تک پہنچتے ہو اس کے بعد تمہارا جینا اس لیے ہوتا ہے کہ بڑھاپے کی منزل تک پہنچو پھر تم میں سے کوئی ان منزلوں سے پہلے مرجاتا ہے اور (کوئی چھوڑ دیا جاتا ہے) تاکہ اپنے مقررہ وقت تک زندگی بسر کرلے اور تاکہ تم عقل وفکر سے کام لو۔
یعنی وہی تو ہے جس نے تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا۔ پھر اس کے بعد نسل انسانی کے تسلسل اور اس کی بقا اور تحفظ کے لیے انسانی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کر دیا۔ اب ہر انسان اس نطفے سے پیدا ہوتا ہے جو صلب پدر سے مادر رحم میں جا کر قرار پکڑتا ہے اسی نے تمہیں ماں کے پیٹ سے بچے کی صورت میں نکالا، ان تمام کیفیتوں اور اطوار سے گزارنے والا وہی اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں پھر اسی نے بچپن سے جوانی تک تمہیں پہنچایا، وہی جوانی کے بعد بڑھاپے تک لے جائے گا۔ بعض اس سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں یعنی حمل ساقط ہو جاتا ہے، بعض بچپن میں، بعض جوانی میں، بعض اُدھیڑ عمر میں بڑھاپے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں جیسے کہ سورہ حج (۵) میں فرمایا کہ: ﴿وَ نُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ﴾ ’’ہم ماں کے پیٹ میں ٹھہراتے ہیں جب تک چاہیں۔‘‘ جبکہ یہاں فرمایا تاکہ تم وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ اور تم سوچو سمجھو۔ یعنی جب تم ان اطوار و مراحل پر غور کرو گے کہ نطفے سے علقہ، پھر مضغہ، پھر بچہ، پھر جوانی، بڑھاپا تو تم جان لو گے کہ تمھارا رب بھی ایک ہی ہے۔ اور تمہارا معبود بھی ایک۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی سمجھ لو کہ جو اللہ یہ سب کچھ کرنے والا ہے۔ اس کے لیے قیامت والے دن انسانوں کو دوبارہ زندہ کر دینا بھی مشکل نہیں اور وہ یقیناً سب کو زندہ فرمائے گا۔