وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ ۗ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
اللہ نے یہ سب انتظام صرف اس لئے کیا تھا تاکہ تمہیں خوشخبری ملے، اور اس سے تمہارے دلوں کو اطمینان نصیب ہو، ورنہ فتح تو کسی اور کی طرف سے نہیں، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جو مکمل اقتدار کا بھی مالک ہے، تمام تر حکمت کا بھی مالک۔
غزوہ بدر میں مسلمانوں کی چار طرح سے مدد الٰہی: فرشتے اتارنے کا مقصد یہ تھا تاکہ میدان جنگ میں مسلمانوں کے دل مطمئن ہوجائیں اور وہ پورے وثوق کے ساتھ میدان جنگ میں اتریں۔ اور فرشتوں ہی پر کیا منحصر، مدد کی جو بھی صورت ہو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے ۔ مادی اسباب بھی اللہ کی مدد کے بغیر موثر نہیں ہوسکتے۔ ان کا ہونا ضروری ہے مگر اللہ کی مدد کے بغیر کچھ کام نہیں آتا، اللہ غالب و حکمت والا ہے فتح ہو یا شکست حکمت سے خالی نہیں۔ غرض وہ چار طرح سے مدد یوں تھی: (۱) اللہ نے ہوا کا رخ کفار کے لشکر کی طرف موڑ دیا۔ اور ریت نے اڑ اڑ کر لشکر کو بدحال بنادیا۔ (۲) بارش کا نزول، جس سے کفار کے پڑاؤ میں پھسلن اور دلدل مچ گئی جبکہ مسلمانوں کے پڑاؤ میں ریت جم کر بیٹھ گئی۔ نیز انھیں استعمال کے لیے وافر پانی میسر آگیا۔ (۳) فرشتوں کا نزول سیدنا عباس کہتے ہیں کہ بدر کے دن رسول اللہ نے فرمایا ’’یہ جبرائیل آ پہنچے اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے، لڑائی کے ہتھیار لگائے ہوئے ۔ (بخاری: ۳۹۹۵) (۴) کفار کو مسلمانوں مجاہدین کی تعداد اصل تعداد سے دوگنی نظر آنے لگ گئی۔ فتح و نصرت میں رسول اور ساتھیوں کا دخل نہیں ہوتااللہ کی تقدیر پر یقین ہوتا ہے: شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن نہ مال غنیمت نہ کشو رکشائی [علامہ اقبال ]