إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا ۖ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو ان کو برا لگتا ہے، اور اگر تمہیں کوئی گزند پہنچے تو یہ اس سے خوش ہوتے ہیں، اگر تم صبر اور تقوی سے کام لو تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کے ( علم اور قدرت کے) احاطے میں ہے۔
اس آیت میں منافقین کی اس شدید عداوت کا ذکر ہے جو انھیں مومنوں کے ساتھ تھی، اور وہ یہ کہ جب مسلمانوں کو خوشحالی میسر آتی، اللہ کی طرف سے ان کو تائید و نصرت ملتی اور مسلمانوں کی تعداد و قوت میں اضافہ ہوتا تو منافقین کو بہت بُرا لگتا اور اگر مسلمان قحط سالی، یا تنگدستی میں مبتلا ہوتے یا اللہ کی مشیت و مصلحت سے دشمن وقتی طور پر مسلمانوں پر غالب آجاتے (جیسے جنگ اُحد میں ہوا) تو بڑے خوش ہوتے مقصد بتلانے سے یہ ہے کہ جن لوگوں کا حال یہ ہو، کیا وہ اس لائق ہوسکتے ہیں کہ مسلمان ان سے محبت کی پینگیں بڑھائیں اور انھیں اپنا رازدان اور دوست بنائیں؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے بھی دوستی رکھنے سے منع فرمایا۔ کافروں سے دوستی سے منع کرنے کی وجوہات: (۱) وہ تمہارے درمیان خرابی، بگاڑ اور فساد پیدا کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے اور ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ تم میں فتنہ و فساد، تفرقہ و انتشار اور بغض و عداوت پیدا ہو (۲)وہ چاہتے ہیں کہ تم کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاؤ۔ (۳) ان کے منہ سے کچھ ایسی باتیں بے اختیار نکل جاتی ہیں جو ان کے دلوں میں پکنے والے لاولے کا پتہ دیتی ہیں۔ (۴) تم تورات پر ایمان رکھتے ہو اور وہ تمہاری کتاب قرآن کے منکر ہیں۔ تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے دشمنی رکھتے ہیں۔ (۵) اگر تمہیں کوئی بھلائی حاصل ہو تو وہ جل بھُن جاتے ہیں اور اگر کوئی تمہیں تکلیف پہنچے تو پھولے نہیں سماتے۔ (۶) ان کی خیر خواہی کی بات بھی منافقت پر مبنی ہوتی ہے لہٰذا ان وجوہات کی بناء پر تمہیں ان سے دوستی نہ رکھنی چاہیے، راز بتانا تو بڑی دور کی بات ہے۔