يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
اے ایمان والو ! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو راد دار نہ بناؤ، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ (٣٩) ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اٹھاؤ، بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ ( عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتا دی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو۔
یہ خطاب دراصل انصار مدینہ سے ہے ان کے دو بڑے قبیلے اوس و خزرج مدینہ میں آباد تھے اور مدینہ کے یہودی بھی تین قبائل میں منقسم تھے یہودیوں کا کام یہ تھا کہ ایک قبیلہ اوس کا حلیف بن جاتا اور دوسرا خزرج کا اس طرح اوس و خزرج کو آپس میں لڑاتے اور کئی طرح کے مفادات حاصل کرتے مثلاً (۱)ان کے ہتھیار فروخت ہوجاتے تھے (۲)اپنی کم تعداد کے باوجود انصار مدینہ پر اپنی بالادستی قائم رکھتے۔ (۳)ان کی معیشت اور سیاست پر چھائے رہتے۔ جب اوس و خزرج مسلمان ہوگئے تو اس کے بعد بھی انھوں نے یہودیوں سے پرانے تعلقات قائم رکھے۔ لیکن یہودیوں کو رسول اللہ کے مشن سے جو بغض و عناد تھا اس کی وجہ سے انھوں نے مسلمانوں سے مخلصانہ محبت کی بجائے منافقانہ روش اختیارکررکھی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں میں فتنہ و فساد پیدا کردیں انھیں وجوہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے غیر مسلموں سے دوستی گانٹھنے اور انہیں اپنا راز دار بنانے سے روک دیا کافر و مشرک مسلمانوں کے بارے میں جو عزائم رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی نشاندہی فرمادی جن کا وہ اظہار کرتے تھے اور جنھیں اپنے سینوں میں مخفی رکھتے تھے۔ اس لیے فقہاء و علماء نے لکھا ہے کہ اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کلیدی عہدوں پر فائز کرنا جائز نہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک ذمی (غیر مسلم) کو اپنا کاتب (سیکرٹری) رکھ لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انھیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا: ’’تم انھیں اپنے قریب نہ کرو۔ جبکہ اللہ نے انھیں دور کردیا ہے، ان کو عزت نہ بخشو اور انھیں امین اور رازدار مت بناؤ جبکہ اللہ نے انھیں خائن قراردیا ہے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ۱۰/ ۱۲۸، ح: ۲۰۴۰۹) بد قسمتی سے آج کے اسلامی ممالک میں بھی قرآن کے اس نہایت اہم حکم کو اہمیت نہیں دی جارہی۔ اس کے برعکس غیرمسلم بڑے بڑے کلیدی مناصب اور اہم عہدوں پر فائز ہیں جن کے نقصانات واضح ہیں۔ اگر اسلامی ممالک اپنی داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں اس حکم کی رعایت کریں تو یقینا بہت سے مفاسد اور نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔