قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ
(جب فرشتوں نے اس طرح اپنے عجز کا اعتراف کرلیا، تو) حکم الٰہی ہوا۔ "اے آدم، تم (اب) فرشتوں کو ان (حقائق) کے نام بتلا دو" جب آدم نے بتلا دیے تو اللہ نے فرمایا " کیا میں نے تم سنے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے تمام غیب مجھ پر روشن ہیں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی میری علم میں ہے اور جو کچھ تم چھپاتے تھے وہ بھی مجھ سے مخفی نہیں"
جب فرشتوں کو آدم کے علمی احاطہ کا علم ہوگیا تو انھوں نے اپنے عجز کا اعتراف کرلیا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو وہ بات بتادی جو وہ نہیں جانتے تھے۔ وہ یہ تھی کہ انسان میں اگر فتنہ و شر کا پہلو ہے تو اصلاح و درستی کا پہلو بھی موجود ہے۔ اور صلاح و خیر کا پہلو غالب ہے اسی لیے اسے خلیفہ بنایاجارہا ہے اور وہ علمی کمال کی وجہ سے اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ علم عبادت سے افضل ہے عبادت کا تعلق صرف مخلوق سے ہے۔ جب علم کا تعلق خالق و مخلوق دونوں سے ہے اور سب سے بڑا علیم و خبیر تو اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان فرشتوں جیسی عبادت تو نہیں کرسکتا ہاں علم کی بناء پر فرشتوں پر فضیلت اور حق خلافت قرارپایا ہے۔