لَن يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى ۖ وَإِن يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ
وہ تھوڑا بہت ستانے کے سوا تمہیں کوئی نقصان ہرگز نہیں پہنچا سکیں گے، اور اگر وہ تم سے لڑیں گے بھی تو تمہیں پیٹھ دکھا جائیں گے، پھر انہیں کوئی مدد بھی نہیں پہنچے گی۔
یہودی محض گالی دینا، بُرا بھلا کہنا، تمہارے خلاف سازشیں کرنا، غلط پراپیگنڈہ کرنا ہی کرسکتے ہیں جس سے وقتی طور پر ضرور تکلیف پہنچتی ہے، تاہم میدان حرب و ضرب میں وہ تمہیں شکست نہیں دے سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا مدینہ سے بھی یہودیوں کو نکلنا پڑا، پھر خیبر فتح ہوگیا اور وہاں سے بھی نکلے، اسی طرح شام کے علاقے میں عیسائیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ عیسائیوں نے اس کا بدلہ لینے کی کوشش کی اور بیت المقدس پر قابض ہوگئے مگر اسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے نوّے سال بعد آزاد کروالیا۔ انھیں کسی سے مدد نہ مل سکے گی۔ مقابلے میں آنے کی ان میں سکت نہیں اور اگر یہ ایسا کریں گے تو بُری طرح پٹ کر بھاگ کھڑے ہونگے اور اس وقت منافق بھی ان کی مدد نہیں کریں گے جو ان سے سازباز کرتے اور مدد کے وعدے کرتے رہتے ہیں۔ اہل کتاب کے حق میں یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔