سورة ص - آیت 44

وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم نے اس سے کہا) تنکوں کا ایک مٹھا لے، پھر اس سے (اپنی بیوی کو) مار لے اور اپنی قسم نہ توڑ بے شک ہم نے اسے (ایوب کو) صابر پایا، بہترین بندہ تھا ( اور وہ) اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنیوالا تھا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

 سیدنا ایوب علیہ السلام کا اپنی بیوی کو سزا دینا: آپ کی طویل بیماری کے دوران آپ کی سب بیویاں اور اولاد آپ کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ کیوں کہ تنگدستی بھی تھی اور بیماری بھی چنانچہ آپ کی صرف ایک بیوی نے اس طویل عرصہ میں آپ کا ساتھ دیا۔ اس بیوی نے بھی ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر طیش آ گیا اور کہنے لگے کہ جب میں تندرست ہو گیا تو تمہاری اس ناشکری کی بات کی پاداش میں تمہیں سو لکڑیاں ماروں گا۔ اب یہ تو ظاہر بات ہے کہ ہر دکھ درد میں آپ علیہ السلام کی شریک بیوی سے اگر کوئی ایسی بات نکل بھی گئی ہو۔ تو وہ اتنی قصور وارنہ تھی کہ اسے سو لکڑیاں ماری جائیں۔ یہ تو صرف حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمانی کا تقاضا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ تو ہر ایک کو اس کی وسعت کے مطابق ہی تکلیف دیتا ہے۔ چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تندرست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود انھیں تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لو جس میں سو تنکے ہوں اس سے بس ایک ہی معمولی سی ضرب لگاؤ۔ اور اس طرح اپنی قسم پوری کر لو۔ اس طرح حضرت ایوب علیہ السلام کی قسم بھی پوری ہو گئی اور اس وفا دار بیوی پر اللہ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہو گیا۔ شرعی حیلہ کس صورت میں جائز ہے: یہاں یہ بحث چل نکلی ہے کہ آیا شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے یا نہیں تو اس کا جواب ہے کہ اگر اپنی ذات یا کسی دوسرے سے ظلم کودفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے اور اس کی دلیل ایک تو یہی آیت ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو خود ایسی تدبیر بتائی تھی کہ جس سے ان کا چھوٹا بھائی بنیامین اپنے سوتیلے بھائیوں کے ظلم وستم سے محفوظ رہے۔ اور تیسرے درج ذیل حدیث ہے۔ حضرت سعید بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ (یعنی سعید راوی کے باپ) ایک معذور کمزور زانی کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھجور کی ایک بڑی ٹہنی پکڑ کے جس میں سو چھوٹی ٹہنیاں ہوں اس کو ایک مرتبہ مارو۔ (مسند احمد ۵/۲۲۲) حضرت ایوب علیہ السلام کی صفت و ثنا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انھیں بڑا صابر پایا۔ وہ بڑا اچھا اور نیک بندہ ثابت ہوا۔ اس کے دل میں ہماری سچی محبت تھی۔ وہ ہماری طرف جھکتا رہا اور ہم ہی سے لو لگائے رہا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو اللہ سے ڈتا رہتا ہے اللہ اس کے چھٹکارے کی صورت نکال ہی دیتا ہے۔ اور اسے ایسی جگہ سے روزی پہنچاتا ہے جو اس کے خیال میں بھی نہ ہو۔ اللہ پر توکل رکھنے والوں کو اللہ ہی کافی ہے۔