سورة آل عمران - آیت 105

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جن کے پاس کھلے کھلے دلائل آچکے تھے، اس کے بعد بھی انہوں نے آپس میں پھوٹ ڈال لی اور اختلاف میں پڑگئے، ایسے لوگوں کو سخت سزا ہوگی۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

روشن دلیلیں آجانے کے بعد: اس آیت میں جن لوگوں کی طرح بننے سے منع کیا گیا ہے ان سے مراد اہل کتاب ہیں۔ یعنی یہود و نصاری، ان کے باہمی اختلاف و تفرقہ کی وجہ یہ نہ تھی کہ انھیں حق کا پتہ نہیں تھا اور وہ ان حقائق سے بے خبر تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے محض اپنے دنیاوی مفادات اور نفسانی اغراض کے لیے اختلاف و تفرقہ کی راہ اختیار کی تھی۔ قرآن مجید میں بار بار اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ گمراہ فرقوں کے قائدین عموماً عالم دین اور ذہین و فطین قسم کے لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ یہ لوگ عموماً متشابہات اور محکمات کی غلط تاویل کرکے اپنے بدعتی عقائد کو کتاب و سنت سے جڑا ہوا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا مقصد فقط ایک فرقہ کی قیادت یا دوسرے مالی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اپنے طور پر تحقیق کرنا ضروری ہے ۔ وہ اسی بات پر ہی اکتفا نہ کرے کہ اس کے فرقہ کا قائد بہت بڑا عالم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود اکہتر فرقوں میں بٹ گئے، نصاری بہتر فرقوں میں اور میری اُمت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے ایک فرقہ کے سوا سب دوزخی ہونگے، صحابہ نے عرض کیا کہ وہ نجات پانے والا فرقہ کونسا ہوگا تو آپ نے فرمایا (مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ) یعنی وہ فرقہ جو اسی راہ پر چلے گا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ لہٰذا ہر فرقہ کے مسلمانوں کو تحقیق کرلینا چاہیے کہ اس کا کوئی عقیدہ اور عمل ایسا تو نہیں جس کا وجود دورنبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا دور صحابہ سے ملتا ہی نہ ہو؟ اور اگر ملتا نہ ہو تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ گمراہی میں مبتلا ہے۔ (ترمذی: ۲۶۴۱)