وَإِن كَانُوا لَيَقُولُونَ
اور بلاشبہ (نزول قرآن سے پہلے) یہ کافر کہا کرتے تھے
سیدنا شعیب علیہ السلام کے بعد حجاز میں کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ یہ لوگ جب سنتے کہ فلاں علاقے میں فلاں نبی مبعوث ہوا ہے تو بسا اوقات یہ آرزو کیا کرتے کہ اگر ہمارے پاس بھی کوئی نبی آتا اور اللہ کی کتاب نازل ہوتی تو ہم اللہ کے ایسے فرمانبردار بندے بنتے جو دوسرے لوگوں کے لیے ایک مثال ہوتی۔ جیسا کہ سورہ انعام (۱۰۹) میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَآءَتْهُمْ اٰيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ مَا يُشْعِرُكُمْ اَنَّهَا اِذَا جَآءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ﴾ یعنی بڑی بڑی قسمیں کھا کر کہتے کہ اگر کوئی نبی اللہ ہماری موجودگی میں آ جائیں تو ہم بڑے نیک بن جائیں گے اور ہدایت کی راہ کی طرف سب سے پہلے لپکیں گے لیکن جب نبی اللہ آ گئے تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ پھر جب ان کے پاس نبی آخر الزماں آ گیا تو اپنے سب قول و قرار بھول گئے نبی کی تکذیب کی اور اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔ اب انھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ اللہ سے کفر کرنے اور نبی کو جھٹلانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔