إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ
(اس کے برخلاف) جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا، پھر کفر میں بڑھتے ہی چلے گئے، ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی۔ (٣١) ایسے لوگ راستے سے بالکل ہی بھٹک چکے ہیں۔
توبہ قبول ہونے کی تین شرطیں لازم ہیں: (۱) سچی توبہ کریں۔ (۲)اپنے اعمال و افعال درست کرکے اپنی اصلاح کرلیں اور جو کچھ باطل عقائد لوگوں میں پھیلا چکے ہیں اس کی بھی تردید کریں۔ (۳) اپنی غلطی کا اعتراف کریں۔ توبہ کا دروازہ ہر وقت ہر ایک کے لیے کھلا ہے، پہلی آیت میں بھی توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بار بار توبہ کی اہمیت و قبولیت کو بیان فرمایا ہے جیسے سورۃ الشوریٰ (۲۵) التوبہ (۱۰۴) یہ مضمون صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور احادیث میں بھی یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہواہے اس لیے اس آیت سے مراد آخری سانس کی توبہ ہے جو نا مقبول ہوگی۔ قرآن کریم سورۃ النساء (۱۸) ’’ان کی توبہ قبول نہیں ہے جو برائی کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے ایک کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے میری توبہـ‘‘۔ حدیث میں بھی ہے اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اسے موت کا اچھو نہ لگے یعنی جان کنی کے وقت کی توبہ قبول نہیں۔ (ترمذی: ۱۸۲۱)