وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
اور (ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس (کتاب) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے، اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے) گواہ بن جاؤ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ایک عہد تو تمام بنی آدم سے عالم ارواح میں لیا تھا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے ۔ اور دوسرا عہد ہر نبی سے لیا گیا کہ اس کی زندگی اور دور نبوت میں اگر کوئی دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہوگا اور وہ تمہارے پاس پہلے سے موجود کتاب کی تصدیق کرتا ہوگا، یہ عہد لینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے اس حکم کی بجا آوری کی تصدیق بھی کروائی۔ بہت سے انبیاء تو ہم عصر تھے اور وہ ایک دوسرے کے معاون و مددگار بھی تھے۔ مثلاً سیدنا ابراہیم، اور لوط، سیدنا موسیٰ اور ہارون، سیدنا عیسیٰ اور یحییٰ وغیرہ۔ پھر جو عہد انبیاء سے لیا گیا تھا اس کو پورا کرنے کی ذمہ داری ہر نبی کی امت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہود پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ حضرت عیسیٰ اور دوسرے انبیاء پر ایمان لاتے اور ان کے کام میں ان کے مددگار ثابت ہوتے۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ جو اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کا پیروکار سمجھتے تھے سب پر یہی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ رسول اللہ پر ایمان لاتے اور ان کے معاون و مددگار ثابت ہوتے پھر یہ بات صرف اس عہد تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ہر نبی کی کتاب میں بعد میں آنے والے نبی کی بشارت بھی دی جاتی رہی اور اس نبی اور اس کی اُمت سے اس قسم کا عہد لیا جاتار ہا۔ آپ کے خاتم النبیین ہونے کی دلیل: واضح رہے کہ رسول اللہ سے پہلے کے انبیاء سے یہ عہد لیا گیا تھا اور ان کی کتابوں میں ایک آنے والے نبی کی بشارت بھی دی گئی تھی۔ لیکن آپ سے اس قسم کا عہد نہیں لیا گیا کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں اور قرآن و حدیث میں کسی نئے آنے والے نبی کی بشارت بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس قرآن میں آپ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے اور بیشمار احادیث صحیحہ سے یہ بات واضح ہے کہ نبوت محمدی کے سراج منیر کے بعد کسی بھی نبی کا چراغ نہیں جل سکتا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ ’’ایک مرتبہ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ تورات کے اوراق پڑھ رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور فرمایا ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہو کرآجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جا ؤ تو یقینا گمراہ ہوجا ؤ گے۔‘‘ ((مسند احمد: ۳/۳۳۸، ۲ :۱۴۶۳۱) اب قیامت تک واجب الاتباع صرف محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ہیں اور نجات انہی کی اطاعت میں منحصر ہے نہ کہ کسی امام کی اندھی تقلید یا کسی بزرگ کی بیعت میں جب کسی پیغمبر کا سکہ نہیں چل سکتا تو کسی اور کی ذات غیر مشروط اطاعت کی مستحق کیونکر ہوسکتی ہے۔