سورة يس - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

تعارف سورۂ یٰسین: کلام کا مدعا کفار قریش کو نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے اور ظلم و استہزا سے اس کا مقابلہ کرنے کے انجام سے ڈرانا ہے۔ اس میں انذار کا پہلو نمایاں ہے۔ دلائل سے تفہیم بھی کی گئی ہے۔ استدلال تین امور پر کیا گیا ہے۔ (۱)توحید پر آثارِ کائنات اور عقل عام سے۔ (۲)آخرت پر آثار کائنات، عقل اور خود انسان کے اپنے وجود سے۔ (۳)رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر اس بات سے کہ آپ تبلیغ رسالت میں یہ ساری مشقت محض بے غرضانہ برداشت کر رہے تھے۔ اور جن جن باتوں کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ سراسر معقول تھیں اور انھیں قبول کرنے میں لوگوں کا اپنا بھلا تھا۔ اس میں ملامت اور تنبیہ کے مضامین نہایت زور دار طریقے سے بار بار ارشاد ہوئے ہیں تاکہ دلوں کے قفل ٹوٹیں اور جن کے اندر تھوڑی سی بھی قبول حق کی صلاحیت ہو وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ (تفہیم القرآن) امام احمد، ابوداؤد، نسائی ابن ماجہ اور طبرانی وغیرہ نے معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یٰسین قرآن کا دل ہے۔‘‘ (ترمذی: ۲۸۸۷) یہ تشبیہ اس طرح ہے۔ جیسے سورہ فاتحہ کو ام القرآن فرمایا گیا ہے۔ ام القران قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قرآن مجید کی تعلیم کا پورا خلاصہ آ گیا ہے۔ اور یٰسین کو دھڑکتا ہوا دل اس لیے فرمایا کہ اس کی دعوت سے جمود ٹوٹتا اور روح میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ انہی معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے مرنے والوں پر یٰسین پڑھا کرو۔ مرنے والے پر رحمت وبرکت نازل ہوتی ہے۔ (مسند احمد: ۵/ ۲۶) بزار کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’میری چاہت ہے کہ میری اُمت کے ہر فرد کو یہ سورت یاد ہو۔‘‘ مشرکین مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں شک کرتے تھے۔ کہتے تھے (لَسْتَ مُرْسَلًا) سورہ الرعد میں ارشاد ہے کہ: ﴿وَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا﴾ (الرعد: ۴۴) ’’ تو تو پیغمبر ہی نہیں ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں قرآن کریم کی قسم کھا کر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً رسولوں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کی رسالت کے لیے قسم نہیں کھائی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیازات و خصائص میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اثبات کےلیے قسم کھائی ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔