سورة فاطر - آیت 37

وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور منکرین آخرت دوزخ میں چلاتے رہیں گے، خدایا ہم کو جہنم سے نکال کہ صالح اعمال بجالائیں وہ نہیں جنہیں پہلے (صالح کام سمجھ کر) کرتے تھے (بلکہ وہ جو فی الحقیقت صالح ہیں) (جواب ملے گا) کیا ہم نے تمہیں دنیا میں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اگر کسی کو سوچنا منظور ہوتا تو وہ اس میں سوچ لیتا اور علاوہ ازیں تمہارے پاس ڈرانے والے بھی آئے سواب تمہاری سزا یہی ہے کہ اپنے کیے کا بدلہ چکھتے رہو اب ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا (١٠)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جہنمیوں کی فریاد کے مختلف جوابات: اہل دوزخ کی اس فریاد کا ذکر بھی قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور اس کے مختلف جوابات بھی۔ مثلاً ایک مقام پر یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگر ہم انھیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیں تو وہ پھر دنیا کی دلفریبیوں پر مفتون ہو جائیں گے اور پھر ویسے ہی کام کریں گے جیسے پہلے کر کے آئے ہیں دوسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ ان کی یہ آرزو بالکل لغو ہو گی کیونکہ ایمان لانے سے مراد غیب پر ایمان لانا ہے۔ اور اعمال صالحہ کا نمبر اس کے بعد آتا ہے اور یہاں روز آخرت میں جب سب کچھ انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو پھر یہ تو ایمان بالشہادت ہو گیا اور شہادت یا دیکھی ہوئی چیز پر تو ہر کوئی یقین کرلیتا ہے۔ پھر ان کی آزمائش کیا رہی۔ جب کہ ہر انسان کو قوتِ ارادہ و اختیار اور عقل و فہم اس لیے دیا گیا تھا کہ اس کی آزمائش ہو گی تیسرا جواب یہاں دیا گیا ہے کہ کیا تمہیں اتنی عمر دنیا میں نہیں دی گئی تھی کہ اگر غور و فکر کرکے تم ایمان لانا چاہتے تو اس میں کوئی بات مانع نہ تھی۔ اس کے علاوہ تمھارے پاس نبی بھی آئے تھے۔ جنھوں نے تمہیں تمہارے اس برے انجام سے پوری طرح آگاہ کر دیا تھا اس بات کا ان مجرموں کے پاس کوئی جواب نہ ہو گا۔ اتنی عمر سے مراد سن شعور ہے، بلوغت کے بعد انسان میں عقل و شعور آ جاتا ہے وہ اپنا نفع و نقصان سوچنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اس عمر میں وہ مکلف سمجھا جاتا ہے۔ اس عمر سے پہلے اگر کوئی شخص مر جائے تو اس کا عذر قابل قبول ہو سکتا ہے اور جس شخص کو چالیس یا پچاس یا ساٹھ سال عمر مل جائے تو اس پر تو مکمل طور پر حجت تمام ہو جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: ’’جسے اللہ تعالیٰ نے ساٹھ ستر سال کی عمر کو پہنچا دیا اس کا کوئی عذر پھر اللہ کے ہاں نہیں چلے گا۔‘‘(بخاری۶۴۱۹، مسند احمد: ۲/ ۲۷۵)