سورة فاطر - آیت 28

وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اسی طرح آدمیوں، جانوروں اور چارپایوں کی رنگتیں بھی کئی طرح کی ہیں جن میں اللہ نے بڑی حکمتیں رکھی ہیں اللہ کا خوف اس کے بندوں میں سے علماء ہی کو ہوسکتا ہے (یعنی انہی دلوں میں پیدا ہوسکتا ہے جنہوں نے کائنات کے ان حقائق واسرار کا مطالعہ کیا ہے اور اس کے علم وحکمت سے بہرہ اندوز ہیں) یقینا اللہ عزیز وغفور ہے (٨)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ڈرتے وہی ہیں جو علم رکھنے والے ہیں: یعنی جتنا خوف الٰہی کرنا چاہیے اتنا خوف تو اس سے صرف علما ہی کرتے ہیں کیونکہ وہ جاننے بوجھنے والے ہوتے ہیں۔ جو شخص جس قدر اللہ کی ذات سے متعلق معلومات رکھے گا؟ اسی قدر اس کی خشیت اس کے دل میں زیادہ ہو گی جو جانے گا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ قدم قدم پر اس سے ڈرتا رہے گا۔ اللہ کے ساتھ سچا علم اس کو حاصل ہے جو اس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، اس کے حلال کیے ہوئے کو حلال اور حرام بتائے ہوئے کاموں کو حرام جانے۔ اس کے فرمان پر یقین کرے، اس کی ملاقات کو برحق جانے۔ اپنے اعمال کے حساب کو سچ سمجھے۔ خشیت ایک قوت ہوتی ہے جو بندے کے اور اللہ کی نافرمانی کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔ عالم کہتے ہی اسے ہیں جو در پردہ بھی اللہ سے ڈرتا ہے۔ اور اللہ کی رضا و پسند کی رغبت کرے اور اس کی ناراضگی کے کاموں سے نفرت رکھے۔ حضرت امام مالک کا قول ہے کہ کثرت روایات کا نام علم نہیں۔ علم تو ایک نور ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے دل میں ڈال دیت اہے۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ علما کی تین قسمیں ہیں۔ عالم باللہ اور عالم بامر اللہ، یہ وہ عالم ہے جو اللہ سے ڈرتا اور اس کے حدود و فرائض کو جانتا ہے۔ دوسرا صرف عالم باللہ، جو اللہ سے تو ڈرتا ہے۔ لیکن اس کے حدود و فرائض سے بے علم ہے۔ تیسرا صرف عالم بامر اللہ، جو حدود و فرائض سے باخبر ہے لیکن خشیت الٰہی سے عاری ہے۔ (ابن کثیر)