وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ
وہ اللہ ہی تو ہے جوہواؤں کو بھیجتا ہے پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں پھر ہم اس بادل کو کسی خشک علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے مری پڑی زمین کو جلا اٹھاتے ہیں اسی طرح لوگو کا جی اٹھنا ہوگا
موت کے بعد زندگی: قرآن کریم میں موت کے بعد کی زندگی پر عموماً خشک زمین کے ہرا ہونے سے استدلال کیا گیا ہے کہ زمین بالکل سوکھی پڑی ہے۔ کوئی تروتازگی اس میں نظر نہیں آتی لیکن بادل اٹھتے ہیں، ان سے پانی برستا ہے پھر اس کی خشکی تازگی سے اور موت زندگی سے بدل جاتی ہے۔ یا تو ایک تنکا نظر نہ آتا تھا یا کوسوں تک ہریالی ہی ہریالی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بنو آدم کے اجزا قبروں میں بکھرے پڑے ہوں گے۔ ایک سے ایک الگ ہو گا۔ لیکن عرش کے نیچے سے پانی برستے ہی تمام جسم قبروں میں سے اُگنے لگیں گے۔ جیسے زمین سے دانے اُگ آتے ہیں۔ حدیث میں ہے: ابن آدم تمام کا تمام گل سڑ جاتا ہے۔ لیکن ریڑھ کی ہڈی نہیں سڑتی۔ اسی سے یہ پیدا کیا گیا ہے اور اسی سے ترکیب دیا جائے گا۔ (بخاری: ۴۹۳۵، ابن کثیر)